گھریلو جھگڑوں سے تنگ ماں نے اپنے 2 معصوم بچوں کی جان لے لی

نور محمد سومرو  اتوار 29 اکتوبر 2017
بچوں کو ان کے والد نے مارا: ملزمہ کا پولیس کو بیان، کیس پولیس کے لئے چیلنج بن گیا

بچوں کو ان کے والد نے مارا: ملزمہ کا پولیس کو بیان، کیس پولیس کے لئے چیلنج بن گیا

رحیم یار خان:  بسا اوقات انسان کی معمولی سی غلطی اور جلد بازی میں اٹھایا جانے والا قدم زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتا ہے، ایسا ہی ایک واقعہ رحیم یارخان کے علاقہ اقبال نگر چک 111 پی شرقی میں پیش آیا، جس میں ایک ماں کے اقدام خودکشی اور ساس بہو کے جھگڑے نے 2 معصوم بچوں کی جان لے لی۔

شاکرہ بی بی زوجہ میاں فیصل کا اپنی ساس سے اکثر وبیشتر جھگڑا رہتا تھا‘ بات بات پہ ساس بہو میں تکرار اور تلخ کلامی ہونا معمول تھا، جس کا علم اہل علاقہ اور ان کے قریبی رشتہ داروں کو بھی تھا۔ شاکرہ کا شوہر ایک پڑھا لکھا نوجوان اور پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہے، جس نے ہمیشہ گھریلو جھگڑے کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا اور اپنی اہلیہ کو سمجھاتا رہتا تھا، اسی طرح میکے والے بھی شاکرہ کو سمجھاتے رہتے تھے، لیکن سب لاحاصل۔ 4 اکتوبر کی سہ پہر بھی شاکرہ بی بی کا اپنی ساس کے ساتھ ایک بار پھر کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور شاکرہ بی بی اپنے دونوں بچوں تین چار ماہ کی معصوم بیٹی مشال اور تین ساڑھے تین سالہ بیٹے اویس کو لئے گھر سے نکل پڑی اور گھر کے قریب بہنے والی صادق برانچ نہر کے کنارے بنے فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔

اس دوران شاکرہ کی ساس اور سسر موقع پر پہنچ گئے۔ شاکرہ نے نہر کنارے چلتے ہوئے مبینہ طور پر اچانک بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دی۔ شاکرہ بی بی کو نہر میں چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھ کر نہر کنارے کھڑے افراد بھی انہیں بچانے کے لئے نہر میں کود پڑے، اسی دوران میاں فیصل اور ان کا والد بھی آگئے اور انہوں نے بھی نہر میں چھلانگیں لگا دی‘ ریسکیو 1122 کو بھی اطلاع کردی گئی‘ ریسکیو 1122 کے تیراک بھی موقع پر پہنچ گئے۔ غوطہ خوروں نے شاکرہ بی بی کو تو فی الفور زندہ نکال لیا جبکہ ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد معصوم بچے مل تو گئے، لیکن یہ معصوم کلیاں مرجھا چکی تھیں۔ بچوں کی موت پر غمزدہ ماں کی فریاد پچھتاوا بن کر عرش تک پہنچ رہی تھی اور باپ پر غم وغصہ طاری تھا۔

ریسکیو 1122 نے بچوں کی نعشوں اور ان کی ماں کو شیخ زید ایمرجنسی وارڈ منتقل کردیا۔ اطلاع پر تھانہ اے ڈویژن کے انچارج ہومی سائیڈ ایس آئی وزیر احمد اور بی ڈویژن کے ایس ایچ او اسد اللہ مستوئی بھی موقع پر پہنچ چکے تھے‘ پولیس کارروائی کے بعد بچوں کی نعشوں کو ان کے والد کے حوالے کرتے ہوئے شاکرہ بی بی پر اقدام خودکشی اور اپنے بچوں کو قتل کرنے کی دفعات 325‘ 302 کے تحت بچوں کے باپ میاں فیصل عارف کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔ پولیس نے اپنے طور پر قانونی کارروائی مکمل کرلی تھی اور اس بات کے منتظر تھے کہ متاثرہ خاندانوں پر چھائے ہوئے غم کے کالے بادل چھٹ جائیں تو پولیس تفتیش وکارروائی شروع کی جائے کہ اچانک میاں فیصل نے اپنی اہلیہ شاکرہ بی بی کو طلاق بھجوا دی، اس اقدام سے غمزدہ ماں کو ایک اور دکھ کا سامنا کرنا پڑا‘ نہر میں بچوں کو پھینکنے کا اقدام کتنا ہی سنگ دلانہ کیوں نہ ہو مگر ایک ماں جب اپنے بچوں کو قتل کرتی ہے تو اس کے پیچھے کئی محرکات اور سوالات ہوتے ہیں۔

پولیس ابھی اس معاملہ کی چھان بین شروع کررہی تھی کہ قتل کے مقدمہ میں ملوث ملزمہ شاکرہ بی بی عدالت سے اپنی ضمانت کراکر شامل تفتیش ہونے کے لئے تھانے پہنچ گئی اور اپنا دھماکے دار بیان ریکارڈ کرا دیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ بچوں کو اس نے نہیں بلکہ ان کے باپ نے نہر میں پھینک کر قتل کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ وقوعہ کے روز جھگڑے کے بعد گھر سے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر اپنے والدین کے گھر جارہی تھی کہ اس کا شوہر اور سسرالی تعاقب کرتے ہوئے پہنچے اور بچوں کو چھین کر نہر میں پھینک دیا۔

شاکرہ بی بی کے انکشاف کے بعد بچوں کی موت اور قاتل کی پہچان معمہ بن گئی۔ ڈی پی او ذیشان اصغر‘ ایس پی انوسٹی گیشن شاہنواز چاچڑ اس کیس میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں تاکہ انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جا سکے، اس ضمن میں انہوں نے ڈی ایس پی سٹی چودھری مسعود گجر کو فریقین کا موقف، عینی شاہدین کے بیانات اور میرٹ پر تفتیش کرکے سات روز میں حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی ہیں‘ پولیس اپنی تفتیش اور حقائق جاننے میں مصروف ہے‘ قاتل ماں ہے یا باپ جلد اس کا فیصلہ ہو جائے گا مگر معمولی سے گھریلو تنازع میں 2 معصوم بچوں کی موت کا واقعہ نہ صرف افسوسناک بلکہ سبق آموز بھی ہے۔

اگر ماں نے معصوم بچوں کو مارا ہے تو بہت تکلیف دہ اس لئے بھی ہے کہ ماں تو ایسی ہستی ہوتی ہے کہ بچے کو کانٹے کی معمولی چبھن بھی لگ جائے تو وہ تڑپ اٹھتی ہے، اس لمحے کا تصور ہی بڑا دل دہلا دینے والا ہے کہ جب ایک ماں اپنے سینے سے لگے ہوئے بچوں کو اچانک موت کے منہ میں پھینک دے اور اگر یہ عمل ماں کی بجائے باپ نے کیا ہے تو بچوں کے لئے دنیا کی دھوپ چھاؤں سے بچانے والا سایہ دار اور پھلدار درخت کا مقام پانے والا باپ کس طرح اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بے رحمی کے ساتھ موت کی کال کوٹھڑی میں پھینکنے کا حوصلہ کرسکتا ہے۔ آج علاقے کا ہر فرد یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ میاں بیوی کی ناچاقی ہو یا ساس بہو کا جھگڑا اس دن ایسا کیا ہوا کہ بات بچوں کی موت پر ختم ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔