تحفہ غریب کا

ڈاکٹر یونس حسنی  پير 30 اکتوبر 2017

شعر و سخن اور علم و ادب اب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ اب تو کھلاڑیوں، اداکاروں اور رقص و موسیقی سے ناآشنا موسیقاروں کو بھی اعلیٰ فنکاروں کا مقام دیا جاتا ہے، انھیں طرح طرح سے نوازا جاتا ہے، ان کی چال ڈھال اور انداز و ادا کی تقلید کی جاتی ہے۔ شکایت اس کی نہیں کہ ان پر یہ عنایات کیوں، شکایت یہ ہے کہ آخر علم و ادب کی قدر دانی کون اور کس طرح کرے گا۔

کیا ہمارا معاشرہ ایک عمر علمی کارناموں میں سر پھوڑنے والے اور ’’نہر پر چل رہی ہے پن چکی‘‘ بنے رہنے والوں کا اعتراف، احترام بالائے طاق رکھ کر صرف ایک چھکا یا چوکا لگادینے والے یا چند میچوں میں اچھی کارکردگی دکھاکر ریٹائر ہو جانے والے کھلاڑیوں کے احترام میں ہی سرنگوں رہے گا۔

بے چارے بادشاہ بلاوجہ ہی بدنام تھے۔ بادشاہت اس عہد کا مقبول اور واحد طرز حکمرانی تھا۔ جیسے آج جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں، چند صدی قبل بادشاہت کا بھی بدل نہ تھا اور اچھے وقتوں میں بادشاہ بزور قوت بازو اقتدار حاصل کرتے اور بوجہ فہم و فراست حکمرانی کے حق کو تسلیم کراتے تھے۔ وہ بھی فنون لطیفہ کا سرپرست ہوتے تھے۔ رقاصائیں ان کے دربار سے بھی وابستہ ہوتیں اور کبھی کبھی بلند مرتبہ پاتیں۔ مگر یہ بادشاہ کی تھکن دور کرنے اور حکمرانی کے کھکھیڑوں سے نجات دلانے کا ذریعہ ہوتیں۔

البتہ حکمراں یہ اہتمام کرتے تھے کہ علما و فضلا، شعرا اور ادیب ان کے دربار سے وابستہ رہیں اور برصغیر کے مسلم بادشاہان ایران و توران اور عرب و عجم سے علما و فضلا، شعرا اور دانشوروں کو کھینچ کھینچ کر لاتے اور سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکمرانی کی زیب و زینت کے باعث ہیں۔

اکبر خود پڑھا لکھا نہ تھا مگر کیسے کیسے لوگ دربار سے وابستہ تھے اور معاملہ صرف انارکلی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی اصل قوت ابوالفضل، فیضی اور عرفی وغیرہ تھے اور یہی سلسلہ اکبر کے اطراف میں جاری رہا۔

علم و ادب اور فکر و دانش کی حوصلہ افزائی محض وظیفۂ لب ہی نہ تھی بلکہ جس حکمران کو بھی جو جوہر قابل نظر آیا اس نے اسے بالآخر چن ہی لیا۔ اس لیے اس عہد میں صوفیا اور اولیا بھی اسی ادب و احترام کے مستحق قرار پائے جو صاحب منصب اور خطاب یافتگان کے لیے تھا۔

اب آخر ہمارے جمہوری معاشرے پر کون سی آفت آئی ہے کہ جس طرف دیکھے سطحی دلچسپیاں ہیں۔ کھیل تماشے ہیں اور ان تماشاگروں کے انٹرویوز نئی نسل کے ذہین و فریش نوجوانوں کے لیے نمونۂ تقلید ہیں۔

آپ یورپ سے بھی مقابلہ کر کے دیکھ لیجیے، وہ رقص میں، موسیقی میں، کھیل میں، جوئے میں، شراب نوشی میں، گلے گلے غرق ہیں مگر نئی نئی ایجادات بھی تو وہی کر رہے ہیں۔ ایسے آلات جنگ ایجاد کر لیے گئے ہیں کہ اب شاید فوج رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ صرف سائنسی آلات کی مدد سے دشمن پر قابو پایا جا سکے گا۔ صرف موبائل ہی کو لے لیجیے، اس کی مدد سے نہ صرف مجرموں اور جرائم کا فوری پتہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ امریکا میں بیٹھ کر کراچی میں آپ کی نقل و حرکت کا بخوبی جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ وہ اور یہ بناتے بھی ہیں، ان پر تحقیق بھی کرتے ہیں اور ان کی خوبیوں، خامیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ نئے نئے طریقۂ ہائے علاج وجود میں آ رہے ہیں کہ اﷲ کی قدرت نظر آنے لگتی ہے۔ پھر وہ ان کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ طب سائنس، امن و آشتی، علم و ادب کی دنیا میں قابل احترام اور لائق ہستیوں کو نوبل انعام کے علاوہ بھی طرح طرح سے نوازتے رہتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ اپنے با صلاحیت لوگوں کو سر کھپانے اور گم نامی میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

اسی بے حسی اور کسمپرسی کے دور میں جگنو کی طرح چمکتی ایک ننھی منی سی روشنی کی کرن ہمارے یہاں بھی دیکھنے کو ملی۔ نیکی کتنی ہی حقیر ہو قابل احترام ہوتی ہے۔

محبان بھوپال فورم کی سربراہ شگفتہ فرحت، ان کے شوہر نامدار (واقعی نامدار) اور ان کی ٹیم کے دیگر افراد جہاں اہل بھوپال کی خدمات کو اجاگر کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہیں انھوں نے ایک اور قابل ذکر سلسلہ شروع کیا ہے جب کبھی وہ اس لائق ہوتے ہیں تو شہر کے سر بر آوردہ۔ سر بر آوردہ سے مراد علمی و ادبی اور دانشوری میں سربر آوردہ افراد کو ایک مختصر سی نشست میں مدعو کرتے اور نذر کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو اپنی محبتوں اور چاہتوں کو پھولوں میں لپیٹ کر زیب گلو کر دیتے ہیں۔ اس بار انھوں نے حکیم عبدالحنان، ڈاکٹر اکرام الحق صدیقی، شوق اور پروفیسر ہارون رشید کو اعزاز سے نوازا۔ اس طرح جس طرح ایک بے سروسامان اور غریب آدمی کسی بادشاہ وقت کے اچانک ان کے غریب خانے پر آ جائے، بدحواسی میں وہ جو کچھ پیش کر سکے وہی بیش قیمت ہے۔

حکیم عبدالحنان، طب یونانی میں اہم مقام کے حامل ہیں، حکیم سعید شہید کے مطب میں مطب کرتے ہیں۔ دو بار ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں، نہایت شائستہ اطوار اور خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈاکٹر اکرام الحق صدیقی سول انجینئر ہیں اور شاید سول انجینئرنگ میں پاکستان میں پہلے پی ایچ ڈی۔ لطف یہ ہے کہ انجینئرنگ اپنی جگہ، ایک نغز گو شاعر ہیں، شوقؔ تخلص کرتے ہیں، دبستان لوح و قلم کے روح رواں ہیں اور روٹری کے ڈپٹی گورنر رہے ہیں۔ پروفیسر ہارون رشید ماہر تعلیم ہیں، درس و تدریس سے طویل وابستگی کے علاوہ انتظامی عہدوں پر فائز رہے، بات کرتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں، دوستی کرتے ہیں تو نبھاتے ہیں، انسانوں کی پہچان بھی رکھتے اور قدر کرنا بھی جانتے ہیں، ان کا تعارف ڈاکٹر معین قریشی نے ہی خوب کرایا۔

شگفتہ فرحت اور اویس انصاری نے ان قدآور شخصیات کو قابل اعزاز قرار دے کر ساکت پانی میں پتھر پھینکا ہے۔ لہریں تو اٹھی ہیں دیکھئے کیا ہو؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔