- امیرِ طالبان کا خواتین کو سرعام سنگسار اور کوڑے مارنے کا اعلان
- ماحول میں تحلیل ہوکر ختم ہوجانے والی پلاسٹک کی نئی قسم
- کم وقت میں ایک لیٹر لیمو کا رس پی کر انوکھے ریکارڈ کی کوشش
- شام؛ ایئرپورٹ کے نزدیک اسرائیل کے فضائی حملوں میں 42 افراد جاں بحق
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید مضبوط
- پی ٹی آئی قانونی ٹیم کا چیف جسٹس اور جسٹس عامر فاروق سے استعفی کا مطالبہ
- اہم چیلنجز کا سامنا کرنے کیلیے امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، جوبائیڈن کا وزیراعظم کو خط
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ہوگیا
- اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد مندی، سرمایہ کاروں کے 17ارب ڈوب گئے
- پشاور بی آر ٹی؛ ٹھیکیداروں کے اکاؤنٹس منجمد، پلاٹس سیل کرنے کے احکامات جاری
- انصاف کے شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار جاری
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا پولیس کیلیے 7.6 ارب سے گاڑیاں و جدید آلات خریدنے کی منظوری
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
نابینا شخص فیکٹریوں کا مالک بن گیا
انسان کے لیے زندگی کا ہر قدم نئی آزمائش لاتا ہے۔ ان آزمائشوں کا مقابلہ صبر اور ہمت کے ساتھ کرنے والے ہی دوسروں کے لیے بھی جینے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی سبق آموز مثال بھارتی نوجوان سری کانت بول کی بھی ہے۔وہ لاچار اور بے سہارا ہونے کے باوجود زندگی کی سختیوں سے کچھ یوں لڑا کہ آج سینکڑوں دیگر بے کسوں کا سہارا بن چکا۔
پچیس سالہ سری کانت بولا پیدائشی طور پر ہی بصارت سے محروم تھا۔ جب اس کی پیدائش ہوئی تو ہر کسی نے اس کے والدین کو نابینا بچے سے جان چھڑوانے کا مشورہ دیا۔ لیکن والدین نے اپنی غربت کے باوجود اس کی بہترین تعلیم و تربیت کا عزم کرلیا۔ والدین کی طرف سے تو اسے بہت مدد ملی لیکن معاشرے نے انہیں قدم قدم پر دھتکارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
پہلے تو اسکول میں ہی داخلہ ممکن نہ تھا۔ عام بچوں کے ساتھ سری کانت کو بٹھا کر کوئی استاد پڑھانے کے لیے تیار نہ تھا۔ خوش قسمتی سے نابینا بچوں کے سکول میںا س کا داخلہ ہوا تو پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ شروع سے ہی اس نے انتہائی شاندار نتائج دکھائے۔ میٹرک کے امتحان میں 90 فیصد نمبر لیے، لیکن کالج میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے غیر موزوں قرار دے دیا گیا۔
اپنے ایک استاد کی مدد سے تمام سلیبس کو آڈیو میں تبدیل کرکے اس نے جب داخلے کے امتحان میں 98 فیصد نمبر حاصل کرکے دکھائے تو بالآخر اسے داخلہ مل گیا۔ یہ رکاوٹ عبور ہوئی تو گریجوایشن کا مرحلہ آ گیا۔ لیکن اس موقع پر بھارت میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے نامور ادارے آئی آئی ٹی نے سری کانت کو داخلہ دینے سے انکار کردیا۔ بھارت میں تو نہ ملا البتہ امریکا میں واقع دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے اسے داخلہ دے دیا۔ 2012ء میں اس نے امریکی یونیورسٹی سے اپنی گریجوایشن مکمل کرلی۔
سری کانت نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک کمپنی ’’بولانت انڈسٹریز‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی ان پڑھ اور جسمانی معذوری کے شکار افراد کو ملازمت فراہم کرتی اور کاغذ کو ری سائیکل کرکے اور درختوں کے پتے استعمال کرکے پیکجنگ کی اشیا بناتی ہے۔ سری کانت کی کمپنی نے مختصر عرصے میں ہی اس قدر ترقی کی کہ آج اس کے ملازمین کی تعداد تقریباً 450 ہے۔
بھارت کی تین ریاستوں، آندھرا پردیشن، تلنگانہ اور کرناٹکا میں اس کی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ سری کانت کی کامیابی سے متاثر ہوکر بھارت کی مشہور کاروباری شخصیت ،رتن ٹاٹا سمیت متعدد اہم کاروباری شخصیات نے اسکے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے۔ آج اس کی کمپنی کی مالیت 50 کروڑ بھارتی روپے سے زائد ہو چکی۔
اس طرح تمام عمر آزمائشوں کا مقابلہ کرنے اور قدم قدم پر دھتکارے جانے والے سری کانت کی ہمت اور لگن نے اسے بھارت ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ایک ہیرو بنادیا۔ اس نے ہر قدم پر ہار ماننے سے انکار کیا اور نابینا ہونے کے باوجود آج وہ بے شمار بیناؤں کے لیے روشن مثال بن چکا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔