محل پہ ٹوٹنے والا ہو…!

عبدالقادر حسن  منگل 31 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاست میں اگر افواہوں کا بازار گرم نہ رہے تو پھر سیاست گرم نہیں رہتی، ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور گرمی و سردی کے بغیر سیاست کسی کام کی نہیں رہتی اور اس کا رنگ پھیکا پڑتا نظر آتا ہے۔ افواہوں کے دم قدم سے ہی سیاست میں ہل چل رہتی ہے اور بسا اوقات یہی سیاسی افواہیں سچ بھی ثابت ہوتی ہیں، میں نے جب صحافت شروع کی تھی تو استاد نے ایک بات یہ بھی بتائی تھی کہ افواہ بھی حقیقت کے قریب تر ہوتی ہے اورہر افواہ کے پیچھے کوئی نہ کوئی خبر ضرور موجود ہوتی ہے، اس لیے افواہوں کو بھی سنجیدگی سے سننا اور اس کے پیچھے چھپی خبر کو تلاش کر نا چاہیے۔

سیاست کے طالبعلموں کا افواہوں سے واسطہ ہر وقت ہی رہتا ہے اور ہم اخبار نویس بھی ان افواہوں کے پردے میں چھپی خبریں اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچاتے ہیں۔ ٹی وی کے اس جدید دور میں ذرایع ابلاغ اس قدر تیز ہو گئے ہیں کہ افواہیں حقیقت کا پَر لگا کر لمحوں میں ادھر سے اُدھر پہنچ جاتی ہیں لیکن افواہوں اسی کی گردش سے ہی سیاسی زندگی کی گردش جاری ہے اور جب کوئی غیر مصدقہ افواہ کسی معتبر ذریعے سے سنی جائے تو یہ افواہ بھی معتبر بن جاتی ہے ۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنی خواہشات کو افواہوں کی صورت میں پھیلا کر ان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے اور خواہشوں پر افواہوں کے قلعے تعمیر کیے جا رہے ہیں اور سوائے ان چند باخبر لوگوں کی خواہشات کے جو کسی بھی خبری حلقے میں بوجہ قربت رکھتے ہیں کسی کو کچھ معلوم نہی ہوتا کہ صرف خواہشات ہیں جو بے خبر لوگ محفلوں میں ایسے بیان کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ یہ سب کچھ ان کی موجودگی میں ہی ہوا ہو۔ بہر حال خواہشوں پر پہرے تو نہیں بٹھائے جا سکتے، ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ایسی ہی لاتعداد خواہشیں پالنے والے ہمارے سیاستدان ان دنوں ایک بار پھر اپنے ارمانوں کو حقیقت بنانے کے لیے ان دنوں افواہوں کی زور دار گردش میں یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا ہو نے والا ہے اور کب تک ہو گا۔ دراصل معلوم کسی کو کچھ ہوتا نہیں اور سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھا کر اپنے باخبر ہونے کا رعب جمایا جاتا ہے۔

افواہوں کے بارے میں تمہید ذرا زیادہ ہی طویل ہوتے ہی کالم کی گنجائش کم ہو گئی۔ آج کل زورو شور سے یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ ملک میں قومی حکومت کے قیام کے لیے راہ ہموار کر کے عارضی طور پر ایک ایسا نظام لانے کی کوشش کی جار ہی ہے جس کے تحت ملک کے تمام نمایندوں پر مشتمل قومی حکومت قائم کی جا سکے جو اگلے کچھ عرصے تک ملک کی باگ دوڑ سنبھالے رکھے اور اس دوران ملک کے ان معاملات کو جن پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ممکن نہیں ہو پاتا اس ناممکن کو ممکن بنایا جائے تا کہ نادیدہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک منظم حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔

پچھلے کچھ عرصے سے ایک بات تواتر سے کہی جارہی ہے کہ ملک کو کچھ ایسے خطرات درپیش ہیں جن کے بارے میں چند لوگوں کے سوا کسی کو علم نہیں اور یہ بات سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنی پریس کانفرنسوں میں دہرائی لیکن کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ وہ کون سے خطرات ہیں جن سے ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے ،اگر یہ خبر صرف چند لوگوں کو ہی معلوم ہے تو اس کو عوام تک بھی پہنچا دینا چاہیے کیونکہ عوام ہی دراصل اس ملک کے مالک ہیں اور حکومت کا انتخاب بھی انھی عوام کی مرضی سے ہی ہوتا ہے، ماضی میں بھی عوام کو لاعلم رکھ کر ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا یا گیا اور عوام کو پتہ تب چلا جب ملک دو لخت ہو گیا۔

عوام کو باخبر رکھنا حکومت اور اداروں کا بنیادی فرض ہے اور جب کسی ملک کے عوام اپنے ملک کے دفاع کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں تو بڑے سے بڑا خطرہ بھی کنی کترا جاتا ہے اور ہمارے عوام تو اپنے ملک کے ساتھ جس ورافتگی کے ساتھ محبت کرتے ہیں اس کامشاہدہ ہم پہلے بھی کئی بار کر چکے ہیں گو عوام ہمیں منتشر نظر آتے ہیں لیکن جب بھی ملک پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو یہ منتشر لوگ یکا یک ایک قوم میں بدل جاتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جس کے بچے بچے کے جذبے جوان بھی ہیں اور وہ ملک پر قربان ہونے کے لیے تیار بھی۔

یہ بات بھی ہماری گھٹی میں پڑ چکی ہے کہ جب بھی ملک میں کسی قسم کی ہلچل کی صورت بنتی ہے تو یہ اخذ کر لیا جاتا ہے کہ اس سیاسی افراتفری کے پیچھے ہماری فوج کا ہاتھ ہے اور کسی بھی وقت فوج ملک کا اقتدار سنبھال لے گی اور ہمارے خواہشوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان سیاستدانوں کو لٹکا دے گی۔ یہ صورتحال اس لیے بن گئی ہے کہ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی فوجی حکومتوں کے سائے میں ہی گزر گئی۔

سیاستدانوں کو جب بھی حکومت کا موقع ملا انھیں ان کی غلطیوں بلکہ نافرمانیوں کے باعث نکال دیا گیا اور ہر بار سیاستدان عوام کی نظروں میں معتوب ہی ٹھہرے۔ حالات کو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ سیاستدانوں کا عوامی تاثر خراب ہی رہا ، اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ فوجی حکومتوں کو ان سیاستدانوں نے ہی سہارا دیا اور ان کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کی قربت کے مزے اُٹھائے اور جب سیاسی دور کا آغاز ہوا تو اسی فوجی حکومت کے خلاف بات کی جس کا وہ حصہ رہے تھے۔ سیاستدانوں کا فوجی حکومتوں پر یہ الزام الزام ہی رہا کہ وہ خود کو اس بات سے بری الزمہ نہیں کر سکے کہ وہ بھی فوجی نظام کا ہی حصہ رہے اور اسی میں اپنی سیاست کو پروان چڑھایا ۔

بہر کیف ایک بار پھر افواہوں کے بازار میں قومی حکومت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، دیکھتے ہیں یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے اور آنے والے انتخابات کے بے چینی سے منتظر سیاستدان کیسے اور کیونکر نظریہ ضرورت کا شکار ہوتے ہیں۔

بقولِ شاعر۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔