ظلمتوں میں چراغ

شکیل فاروقی  منگل 31 اکتوبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

جن مردان حق نے اپنی پوری زندگیاں تبلیغ و خدمت دین کے لیے وقف کردیں ان کی حیثیت ظلمتوں میں نور پھیلانے والے روشن چراغوں جیسی ہے ۔ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر، کا نام نامی اسم گرامی ان عظیم المرتبت ہستیوں میں رہتی دنیا تک نمایاں رہے گا۔ رب کریم نے اپنے خاص کرم سے آپ کو اسم بامسمی بنایا، یعنی ’’اختر‘‘

نابالغی کے زمانے میں گھر سے دور جنگل میں ایک مسجد تھی۔ حضرت آدھی رات کو اٹھ کر چپکے سے وہاں جاکر عبادت کیا کرتے تھے اور فجر تک اللہ تعالیٰ کے حضور میں خوب گریہ و زاری کرتے تھے۔ پاک بازی کا عالم یہ تھا کہ بچپن کے زمانے سے ہی حضرت نے نامحرم خواتین سے پردہ شروع کردیا تھا۔ بچپن کے اسی زمانے میں مثنوی مولانا رومؒ کے چند اشعار پڑھ کر حضرت کو مولانا روم سے اس قدر محبت ہوگئی کہ مثنوی کو سمجھنے کے لیے آپ نے فارسی پڑھنا شروع کردی۔ ’’معارف مثنوی‘‘ ایک منفرد شرح ہے جس میں حضرت والا نے مولانا رومیؒ کے منتشر اور وسیع علوم کو جمع کرکے دریا کوکوزے میں بند کردیا ہے۔

حضرت والا ہندوستان کے شہر پرتاب گڑھ (یوپی) کی ایک چھوٹی سی بستی ’’اٹھیہہ‘‘ کے ایک معززگھرانے میں 1928 میں پیدا ہوئے۔ والد سرکاری ملازم تھے،  اکلوتے فرزند تھے ، دو بہنیں تھیں۔ آپ کا دل شروع سے ہی دینی تعلیمات کی طرف راغب تھا اور شدید خواہش تھی کہ انھیں دارالعلوم دیوبند بھیج دیا جائے، لیکن والد صاحب کے حکم پر درجہ چہارم پاس کرنے کے بعد تین سال تک بادل نخواستہ مڈل تک پڑھائی کی۔ اس کے بعد والد نے آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو ذریعہ معاش کی غرض سے طبیہ کالج الٰہ آباد میں داخل کرا دیا تاکہ دین کو ذریعہ معاش نہ بنانا پڑے۔

حضرت طبیہ کالج سے فارغ ہوکر روزانہ شام پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک مولانا شاہ محمد احمد کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور 15 سال کی عمر سے 18 سال کی عمر تک مسلسل تین برس آپ نے وہیں گزارے۔ حضرت والا کے فطری ذوق شعر و سخن کی تربیت مولانا شاہ محمد احمد  ہی کی صحبت سے ہوئی۔ مولانا کیف و مستی کے عالم میں اشعار پڑھا کرتے اور سامعین پر بے خودی طاری رہتی۔ مولانا کی مجلس اشعار کی مجلس ہوتی تھی۔ حضرت والاؒ کے شیخ اول شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ تھے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔

حضرت والا جب درجہ ہفتم میں پڑھتے تھے تو اس زمانے میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا وعظ ’’راحت القلوب‘‘ پڑھ کر آپ کو حضرت حکیم الامت سے بے حد عقیدت و محبت ہوگئی تھی۔ چنانچہ بیعت ہونے کے لیے آپ نے حضرت تھانویؒ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا لیکن حضرت تھانویؒ کی علالت اور اس کے بعد وصال کے باعث یہ ممکن نہ ہوسکا۔ لہٰذا آپ نے 18 سال کی عمر میں ولی وقت حضرت شیخ شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کا دامن تھام لیا اور 16 سال تک وابستہ و پیوستہ رہے۔

1960 میں اپنے شیخ اول حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کے ہمراہ حضرت والاؒ نے پاکستان ہجرت کی۔ حضرت پھولپوریؒ پاپوش نگر، کراچی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ حضرت والاؒ کے شیخ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کا اصلاحی تعلق بھی حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے تھا۔ امریکا میں ایک انگریز نے حضرت کے ایک مرید سے پوچھا کہ کیا آپ حکیم اختر صاحبؒ کو جانتے ہیں؟ جس جس ملک میں آپ تشریف لے گئے وہاں لاکھوں مردہ دل زندہ ہوگئے، فاسق و فاجر ولی ہوگئے اور بہت سے کافر حضرت والاؒ کی انگریزی میں ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ گویا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ آپؒ ہی کا شعر ہے:

نہیں تھی مجھ کو خبر یہ اختر کہ رنگ لائے گا خوں ہمارا

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

حضرت والاؒ کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد200 کے لگ بھگ ہے اور کئی سو مسودات تیار ہیں۔ حضرت یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ دنیا کی ہر زبان میں میری کتابوں کا ترجمہ ہوجائے اور مجھے جو درد دل اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے سارے عالم میں امت تک پہنچ جائے۔ حضرتؒ کی یہ دعا قبول ہوئی اور حضرت کی کتابیں اور مواعض حسنہ لاکھوں کی تعداد میں اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، جرمن، فرانسیسی، چینی، ملیشیائی، لاطینی، پرتگالی، زولو، بنگلہ، برمی، ہندی، گجراتی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، سرائیکی، پنجابی اور دیگر زبانوں میں شایع ہوچکی ہیں اور ہو رہی ہیں۔

یوں تو تندرسی کے زمانے میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ ہمہ وقت دین کی خدمت میں مصروف رہتے تھے اور تصنیف و تالیف، سائلین کے خطوط کے جوابات اور اصلاح کے لیے آنے والوں کے ساتھ ملاقات کے دوران اپنے آرام کی بھی فکر نہ فرماتے تھے لیکن مجلس ہفتہ میں صرف دو بار ہوتی تھی، ایک اتوار کی صبح اور دوسری پیر کی شام کو۔ لیکن بیماری کی حالت میں صبح سے رات تک چار پانچ مجلسیں ہونے لگیں جن کا دورانیہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے معذوری کی حالت میں مختلف ممالک کے دینی سفر بھی فرمائے اور 2002 سے 2008 تک تین بار حرمین شریفین حاضر ہوکر تین عمرے ادا فرمائے۔

حضرت والا نور مرقدہ اللہ تعالیٰ کے عشق و مستی میں سرشار تھے۔ اگرچہ آپؒ سلسلہ چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ کا حسین سنگم تھے مگر آپؒ پر چشتیت کا رنگ غالب تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے عشق میں سرمستی اور گریہ و آہ و زاری۔ اپنے ہم عصر اللہ والوں سے۔ آپؒ کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ آپؒ ایک ایک گناہ کی بیخ کنی کرنے کے بجائے گناہوں کے پورے جنگل کو آتش الٰہی لگا کر بھسم کردینے کے طریق پر عمل پیرا تھے تاکہ اس کی راکھ کھاد کا کام انجام دے اور اس کی خاکستر سے عشق الٰہی کے نئے پودوں کی افزائش ہو۔

حضرت فرماتے تھے کہ شاعری میں میرا استاد میرا درد دل ہے۔ درج بالا شعر آغاز جوانی میں حضرت والاؒ پر نازل ہوا تھا۔ حضرت والاؒ کے اول مجموعہ کلام بعنوان  ’’فیضان محبت‘‘ آپؒ کی حیات یا صفات کے66 سال بعد اچانک ترجمان درد دل اور آہ و فغاں کی صورت میں نزول پانے والے بے مثل اشعار کا مرقع ہے جو بغیر محنت و کاوش دماغی محض عطائے رحمت حق تعالیٰ شانہ  سے موزوں ہوئے۔

حضرت والاؒ کے دوسرے مجموعہ کلام بعنوان ’’آئینہ محبت‘‘ کی پیشانی پر بھی یہی شعر ثبت ہے۔ اس مجموعے میں بھی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اپنے اسرار قلب کی دولت کو یوں آشکارا فرماتے ہیں:

ہر شعر میرا ‘ غم ہے تمہارا لیے ہوئے
اور درد محبت کا اشارہ لیے ہوئے

ارض و سما سے غم جو اٹھایا نہ جاسکا
وہ غم تمہارا‘ دل ہے ہمارا لیے ہوئے

اس مجموعہ کے چوتھے اور آخری حصے میں حضرت والاؒ کے خلیفہ خاص سید عشرت جمیل میر المعروف حضرت میر صاحب نور مرقدہ کے اشعار بھی شامل ہیں جو اول تا آخر فیض مرشد کامل کا آئینہ دار ہیں۔ حضرت میر صاحبؒ کو حضرت والاؒ سے وہی نسبت حاصل ہے جو حضرت امیر خسروؒ کو سلطان الاولیا حضرت خواجہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ہے۔ 1969 میں اپنی والدہ کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی میں قیام کے بعد حضرت میر صاحبؒ مسلسل 46 سال تک دن رات مسلسل حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر رہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔