حبِ شہباز یا بغض نواز

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 1 نومبر 2017
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

اب سے کچھ مہینے پہلے ملک بھر کے سیاسی حلقوں میں اگلے انتخابات سے متعلق یہ تاثر عام تھا کہ اگر حالات اگلے ایک سال تک جوں کے توں رہے اورملک کے اندرکوئی ڈرامائی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو عام انتخابات جیت لینے سے کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔ اِس عمومی تاثرکی غالباً وجہ حکومت کی وہ چار سالہ کارکردگی تھی جس کی صحت وصداقت سے تمام مخالفت کے باوجودکوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ بہرحال اِن چار سالوں میں ملک کے اندر 2013ء کے مقابلے میں یقیناً کچھ بہتری آئی ہے۔

اِس سے پہلے کے ادوار میں قرض تو لیے جاتے رہے لیکن انھیں عوام کی فلاح وبہبود اور ملک میں انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے پر کبھی بھی اس طرح خرچ نہیں کیا گیا۔اِس کے برعکس میاں نواز شریف کے حالیہ دور حکومت میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں سارے ملک میں سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھایا گیا۔ موٹروے کو دوسرے شہروں تک پھیلایا گیا۔ سی پیک منصوبے پر تیزی سے عمل درآمدکیاگیا۔لوڈ شیڈنگ کا جو دورانیہ 2013ء میں تھا وہ اب گھٹ کے بہت کم رہ گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گیس کی قلت پر بھی قابو پانے کے لیے قطر سے ایل این جی درآمدکرنے کا معاہدہ کیا گیا جس کی وجہ سے آج ہمارے انڈسٹریل سیکٹر سمیت تمام سی این جی اسٹیشنوں کو برابرگیس مل رہی ہے۔

اب ہمارے کارخانے اور فیکٹریاں چوبیس چوبیس گھنٹے بلا تعطل کام کررہی ہیں۔ سی این جی اسٹیشنوں کے باہرگیس کے انتظار میںگاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں سارے ملک میں آج کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہیں۔کئی شہروں میں میٹروبس سروس کا اجراء کیاگیا اور پھر اورنج ٹرین اور کراچی سرکلر ریلوے کو پھر سے بحال کرنے کے منصوبوں پرکام کیاگیا۔

پاکستان ریلوے کو خواجہ سعد رفیق کی وزارت پھر سے درست سمت میں آگے بڑھایا گیا۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری کا رجحان دیکھا گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور افراط زر میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اسٹیٹ بینک کے مارک اپ کی شرح میں بھی خاطرخواہ کمی دیکھی گئی۔ یہ وہ ساری کامیابیاں ہیں جن کی بدولت میاں نواز شریف اور ن لیگ کو لوگ اگلے انتخابات میں ایک بار پھر منتخب ہوتا دیکھ رہے تھے۔

علاوہ ازیں سب سے بڑھ کر حکمرانوں کی وہ سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں ہیں جو انھوں نے ملک کے اندر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اپنی افواج کے ساتھ مل کر کیں۔ سارے ملک سے خود کش حملہ آوروںکے خفیہ ٹھکانوں کو ختم کیاگیا۔کراچی شہر اور بلوچستان میں بھی کئی سالوں سے جاری بد امنی کی فضا کو امن وآشتی میں بدل دیا گیا۔ جوکام پرویز مشرف اپنے نو سالہ دور حکومت میں نہ کرسکے وہ ہماری سول حکومت نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر دو تین سال میں کردکھایا۔

لیکن افسوس کہ یہ سلسلہ کچھ زیادہ دیر نہیں چل پایا اور نااُمیدیوں اور مایوسیوں نے ہمیں ایک بار پھر گھیر لیا۔ اب کسی کو نہیں پتہ کہ اگلے دوچار مہینوں میں کیا ہونے والا ہے۔ ہرطرف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ نئے عام انتخابات منعقد ہو بھی پائیں گے یا نہیں۔ میاں نواز شریف کو اقامہ رکھنے کے جرم میں اقتدار سے محروم کردیا گیا ۔مارشل لاء، قومی حکومت اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی باتیں ہورہی ہیں۔

دوسری جانب2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی ممکنہ کامیابی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے پارٹی کے اندر دراڑیں ڈالنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اِس مقصد کے لیے اُن کے چھوٹے بھائی کو اکسایا جاتا رہا کہ وہ پارٹی کی قیادت سنبھال لیں ۔ میاں شہباز شریف سے ایسے لوگوں کی یہ محبت اور چاہت کوئی نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے۔ ایسا مشورہ دینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی کی قیادت کے تبدیل ہوتے ہیں پارٹی متحد ویکجا نہیں رہ پائے گی اور اِس طرح پارٹی کے اندر پھرکئی گروپس اور دھڑے کھل کر سامنے آجائیںگے۔ ہماری قومی سیاست کی یہ مجبوری ہے کہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی اپنی قیادت کے بناء متحد و متفق نہیں رہ سکتی۔ خواہ وہ مسلم لیگ ہو یاتحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی ہو۔اُن کی قیادت کو ہٹا کر پارٹی کو یکجا رکھناکسی طور ممکن نہ ہوگا۔

شیخ رشید آج کل پارٹی کی صدارت کے لیے شہباز شریف کے حق میںجو مسلسل بیانات دے رہے ہیں، اُن کے پیچھے بھی اُن کی ایسی ہی خواہشیں اورحسرتیں کارفرما ہیں۔وہ کافی عرصے سے دونوں بھائیوں میں نفاق اور نفرتیں پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ میاں شہباز شریف سے اُن کی ہمدردی اور چاہت دراصل میاں نواز شریف کے خلاف اُن کا حسد اور بغض ہی ہے جو انھیں کسی طور چین لینے نہیں دیتا۔وہ مسلم لیگ (ن) سے اپنے نکالے جانے کا بدلہ اور انتقام لینا چاہتے ہیں۔حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج اگر شہباز شریف پی ایم ایل کے سربراہ یا ملک کے وزیراعظم بنادیے جائیں تو یہی شیخ رشید اُن کے بھی سب سے بڑے مخالف اور دشمن بن جائیں گے۔

ملک کے اندر جو قوتیں سیاسی بساط پر اپنی مرضی کا کھیل کھیلتی آئی ہیں وہ2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔آج اگر حدیبیہ پیپر ملز اور ماڈل ٹاؤن کا کیس وقتی طور پر سرد خانوں کی نذرکر دیا گیا ہے تو اُس کی بھی غالباً یہی ایک وجہ ہے کہ شہباز شریف تاحال اداروں کے ساتھ محاذآرائی اور تصادم کے خلاف ہیں اور وہ مسلسل اپنے بڑے بھائی کو اِس سے بچنے کامشورہ بھی دے رہے ہیں۔حالانکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں نیب کو حدیبیہ پیپر ملز کا کیس دوبارہ کھولنے کا حکم دے چکی ہے۔

اُس فیصلے کو تین ماہ گزر چکے ہیں لیکن اِس جانب پیشرفت کا ابھی تک کسی کو بھی خیال نہیںآیا۔ نیب کے کاموں کی نگرانی پر مامورعدالت عالیہ کے معزز جج بھی اِس معاملے میں ابھی تک خاموش اور چپ ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ ایک طے شدہ فارمولے کے تحت کیاجارہا ہے۔شہباز شریف جب تک اِن قوتوں سے مفاہمانہ اور مصالحانہ رویہ برقرار رکھیں گے اُن کے خلاف شاید ہی کوئی کیس از سر نوکھولاجائے۔

سیاسی شطرنج کے ماہرکھلاڑی اپنے مہرے بڑی ہشیاری اور سمجھداری سے چلایا کرتے ہیں۔ وہ اِس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ہی کو آج بھی عوام کی بہت بڑی اکثریت کی پذیرائی حاصل ہے۔ اُسے موجودہ شکل میں انتخابی عمل سے باہر رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔

وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ آیندہ کوئی بھی سیاسی جماعت اتنی اکثریت حاصل کر پائے کہ اکیلے اور تنہا حکومت بنا لے۔ اُن کی مجبوری ہے کہ آج عالمی اورعلاقائی صورتحال بھی اِس قدر اچھے اورموافق نہیں ہے کہ کسی غیر جمہوری سیٹ کا سوچا جاسکے۔ایک طرف امریکا آنکھیں دکھا رہا ہے تو دوسری جانب بھارت اور افغانستان دونوں ملکر ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔

ایسے میں ملک کو درپیش آنے والے خطرات سے نپٹنے کے لیے سیاسی اور جمہوری حکومت ہی ایک بہترین آپشن ہے، لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگلی حکومت کئی مختلف الخیال سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت ہوکیونکہ ایسی کمزور اور بے بس حکومت کو قابو میںرکھنا اُن کے لیے شاید آسان اورسہل ہوتا ہے۔پیرکو لندن میں پارٹی اجلاس نے بہت سارے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں۔ن لیگ قیادت نے اعلان کیاکہ پارٹی میں کوئی تقسیم ہینہ کوئی مائنس نواز فارمولااور کوئی ماورائے آئین اقدام قبول نہیں کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔