جمہوریت کا پودا

قمر عباس نقوی  بدھ 1 نومبر 2017

میری دانست میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے علوم میں سب سے زیادہ مشکل علم ہے تو وہ ہے ’’سیاست‘‘ کا علم۔ یہ عقل و شعو ر اور آگاہی کا علم ہے اور خدمت کا جذبہ اس علم کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اچھا سیاستدان اپنے ملک اور عوام کی فلاح و بہبود اور بہتر و تابناک مستقبل سوچتا ہے۔مگر اس ملک میں سیاست نام کی چیز نہیں ہے اور جمہوریت سیاست کی لونڈی ہے اور نہ ہی عوام خاطر خواہ سیا سی شعور رکھتے ہیں۔

ہر شخص دولت کے حصول کی دوڑ میں مصروف ہے۔ مادیت پرستی کا یہ انجانہ دور ہمیں کہا ں لے جا رہا ہے۔ ملک میں ٹھیکیداری نظام رائج کرکے، لوگوں کو بیروزگاری کے دلدل میں پھنسا کر اور ملک کی اہم صنعتوں اور اداروں کو فروخت کرکے کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت ترقی کی راہ پرگامزن ہوچکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ میڈیا پر اس قسم کے بیانات سے اشرافیہ طبقہ کو احساس ندامت بھی نہیں ہوتا۔

وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاست کا زریں باب ختم ہوگیا تھا۔ سیاست کے طویل خلا کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو نے سیاست کو دوبارہ زندہ کرنے میں ’’طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘ کا تصور متعارف کروایا صیح معنوں میں جمہوریت کا عکس بھٹوکے دور حکومت میں دیکھنے کو ملا۔ عام آدمی خوشحال ہوا۔ بھٹو کی سیاسی بصیرت کی جیتی جاگتی تصویر ان کی دختر اختر مرحومہ بینظیر بھٹو تھیں۔ ان کا وجود بھی ملک میں موجود مخفی طاقتوں کے بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کام کرنے والے ہی سے غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔ بھٹو اوران کی دختر ملک چھوڑکر جلا وطنی میں نہیں گئے، مقدمات کا سامنا کیا اور اسی سر زمیں میں تختہ دار پر جان دے کر ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہوگئے۔

ان طاقتور عناصر کی جڑیں قیام پاکستان کے وقت ہی گہری اور مضبوط ہوچکی تھیں۔ جو ملک میں سیاست یا جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔بدقسمتی سے ملک کی باگ ڈور ان کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو نہ صرف اپنے کاروبار کو ناجائز طریقوں سے دوام بخشتے ہیں بلکہ ٹیکس کی چوری، ملک کے خزانہ کا بے دریغ استعمال، حکومتی اداروں کی نیلامی یا ارزاں فروخت، بیرونی قرضوں کا بوجھ، عوام کے بنیادی حقوق کا استحصال و پامالی، تعلیم کے حساس شعبے کو کاروبار پر لگا دیا، غربت و افلاس اور مہنگائی نے عوام کو بدحال کر دیا۔

بیرونی ممالک ملک سے لوٹے سرمایہ کی مجرمانہ منتقلی جس زمیں میں اس طبقے کی جڑیں پیوست ہوں وہاں جمہو ریت کا پود ا کیونکر لگ سکتا ہے ،بلکہ جمہوریت تو ایسے ہی لٹیرے خاندانوں کی میراث او ر محفوظ آماجگاہ ہے۔الیکشن کے نتائج یا فیصلے عوام کی منشا سے نہیں ہوتے بلکہ ان ہی طاقتوں کی مرضی کے حساب سے ہوتے ہیں۔ عوام ان کی عالیشان گاڑیوں کے گزرنے تک پولیس کی نگرانی میں گھنٹوں ان کا انتظار کرتے ہیں۔

اس حقیقت سے قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی مقدس اور پاک ذات نے ہمیں ایسی سرزمین عطا کی جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی، سونا اگلتی زرعی اراضی، سنگلاخ پہاڑ، رواں دواں دریا اور موجیں مارتا سمندر اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں کہ جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ شب بھر ڈاکو کھیتی لوٹتے رہے صبح دوبارہ سے کھیت فصل سے ہرا بھرا ہو گیا۔

یہ تھا جمہوریت کے آئینہ کا ایک رخ اور دوسرا رخ عوام کے کردارکا ہے، کیونکہ ایک اچھی جمہوریت میں حکومت اور عوام کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ جیسے عوام ہونگے اسی طرح کے عوامی نمایندگان بھی اسمبلیوں میں آئیں گے۔ آپ کے پھیلائے ہوئے کچرے کو سمیٹنا حکومت وقت کی ذمے داری ٹھہرا۔ عوام اخلاقی انحطاط کا شکا ر ہیں۔ قابل فکر ہے یہ پہلو شریف اور اصول پسند افراد کا سڑک پر گاڑی چلانایا پیدل چلنا محال ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم انسانوں میں نہیں بلکہ حیوانوں میں رہ رہے ہیں۔ ڈرائیونگ کے دوران ہارن بجانا بین الاقوامی ضابطے کے تحت اخلاقی جرم ہے مگر یہاں سڑکو ں پر سب سے زیادہ ہارن بجائے جاتے ہیں۔

سڑک پر چلنے کے حقوق سب کے لیے مساویانہ ہوتے ہیں تو پھر آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ کچھ گائیں، بھینسں سڑک عبورکر رہی تھیں، ان کے اوپر بھی کچھ افراد گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے۔ ایک سڑک پر جلد بازی، مقررہ رفتارکی حد کا تجاوز، ٹریفک کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مظاہرہ ان سڑکو ں پر چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے قطع نظر اس کے کہ راستے میں پڑنے والے اسپتال ہوں یا اسکول۔یہ نیک عمل زیادہ تر موٹرسائیکل سوار، تنخواہ دار اورکمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز حضرات کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ پاکستان کو ’’ہارن فری پاکستان‘‘ بنا دیا جائے۔ آج کل پوری دنیا ماحولیات کے حوالے سے خاصی پریشان ہے کہ کس طرح سے بڑھتی ہوئی آلودگی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ٖفضا اور ارد گرد کے ماحول کو پرسکون اور آلودگی سے پاک بنایا جائے۔

درخت اور پارکس کی ضرورت پر زوردیا جارہا ہے۔ ہمارے ہا ں خاصی تعداد میں پارکس موجود تھے جن میں کچھ تو زبوں حالی کا شکار ہیں اور کچھ پارکس مساجد کی تعمیرکی نظر ہو گئے اور یوں پارکس کی تاریخ قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔پان کھانے کی ابتدا لکھنو سے ہوئی مگر لکھنو تہذیب اور ادب و آداب کا مسکن تھا۔ پاکستان میں بالخصوص کراچی میں پان خوری کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

پان کی بگڑی ہوئی شکل ریپر میں پیک تمباکوکے اجزا سے تیار شدہ گودہ یا گٹکا کہتے ہیں جو پان کا نعم البدل ہے۔ کھانے کے دوران منہ میں پانی یا پیک کی شکل میں جمع ہوتا رہتا ہے جس کا اخراج ہی شہر میں گندگی پھیلانے کے مترادف ہے۔ شہرکی کوئی بلڈنگ، شاہراہ، درو دیوار، ایسی نہیں جس پر پچکاریوں کی غلیظ نقش نگاری نہ ہو۔ دیکھنے والا کراہیت محسوس کرتا ہے۔ بہرحال نشہ تو نشہ ہے خواہ کسی بھی شکل میں ہو۔ شادیوں اور دیگر تقریبات میں کھانے کے دوران لوگوں کا جارحانہ رویہ غور طلب ضرور ہے۔ پلیٹوں میں اس طرح پہاڑیاں بناتے ہیں جیسے دوبارہ کھانا ملے گا ہی نہیںاور وہ کھانا پلیٹوں میں بچا کر یہ جا وہ جا۔ اس عمل سے کچھ افرادکھانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کھانے کا بے دریغ ضیاع ہمیں کیا سکھاتا ہے۔

قوم انسانوں کی منظم جماعت کا نام ہے حیوانوں کے کسی ریوڑھ کی نہیں۔ نماز، روزے، حج، عمرہ ، اور ارکان دین، پیغمبروں ، آئمہ کرام حضرت انسان ہی کی اصلاح کے لیے دنیا میں آئے تھے، حیوانوں کے لیے نہیں۔کتنے رنج و الم کی بات ہے کہ جس ملک میں واٹر کولر پر رکھے ہوئے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجدوں میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہووہا ں غیر جمہوری صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تبدیلی کے لیے ہر انسان کو اپنا اخلاق اور کردار بدلنا ہوگا۔ طییب اردوان، ماو زے تنگ، چوان لا ئی، نیلسن منڈیلا جیسی انقلابی سیاسی شخصیات کے نظریات کو مشعل راہ بنا کر ان کی پیروی کرنی ہوگی۔ دعا ہے کہ ہمیں مرنے سے قبل اچھا انسان بننے کی توفیق اللہ تعالی عطا فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔