بیڑا غرق ہو ان لفظوں کا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 1 نومبر 2017

انسان کو انسان لفظ ہی نے بنایا ہے، انسانیت کی شروعات اس وقت ہوئی جب کچھ جانور اور انسانوں نے غار یا درخت پر پالتی مارکر اپنے دماغ کو پہلے اسم نکرہ ایجاد کرنے میں مصروف کیا۔

لفظ سوچ کے لیے اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح کام کے لیے اوزارکرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ اسی لفظ نے انسان کو بہت ذلیل وخوار بھی کرایا ہے اگر کرپشن، لوٹ مار، غبن،کمیشن، جھوٹ، دھوکا بازی، فراڈ کے لفظ ایجاد ہی نہ ہوئے ہوتے اور ان کا کوئی وجود ہی نہ ہوتا تو ہمارے سابق حکمران آج بھی حکمرانی کے مزے لے رہے ہوتے۔ آج بھی تمام لذتوں کے مزے اُڑا رہے ہوتے اور جو جی چاہ رہا ہوتا مزے مزے لے کر کررہے ہوتے لیکن خدا غارت کرے ان لفظوں کو جنہوں نے ان کے سارے کے سارے مزے غارت کرکے رکھ دیے کیونکہ اگر یہ لفظ ہی نہ ہوتے تو نہ تو پاناما لیکس وجود میں نہ آتا نہ ہی ان کی بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں سے دنیا واقف ہوتی نہ ہی ان پرکیس بنتے۔ نہ ہی ان کو سزا ہوتی نہ ہی وہ نااہل ہوتے اور نہ ہی انھیں اس طرح رسوا ہوکرکرسی چھوڑنی پڑتی۔

اس لیے تو کہہ رہے ہیں کہ اگر لفظ نے انسان کو انسان بنایا ہے تواسی لفظ نے انسان کو بڑا ہی ذلیل وخوار بھی کیا ہے اس لیے ہمارے سابق حکمرانوں کو سارے کام کاج چھوڑ کر پہلے یہ کام کرنا چاہیے کہ وہ ان لفظوں کے خلاف اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ ایک بھرپور احتجاجی مہم کا آغاز پہلی ہی فرصت میں کردیں ۔

یہ پر زور مطالبہ پوری دنیا سے کریں کہ ان لفظوں پر تاقیامت پابندی عائد کر دی جائے اور انھیں دنیا بھرکی ڈکشنریوں اور قانون کی کتابوں سے فی الفورخارج کردیا جائے اور ان کے استعمال پر بھی پابندی لگادی جائے اور اگرکوئی شخص دانستہ یا غیر دانستہ ان لفظوں کو استعمال کرنے کی جرأت کر بیٹھے تو اسے تاحیات جیل میں ڈال دیا جائے۔ ہمارے سابق حکمرانوں کو ان مطالبات کو منظورکروانے کے لیے دھرنے، لانگ مارچ سمیت تمام کے تمام آپشن کو بروئے کار لانا چاہیے اور جب تک ان کے یہ مطالبات منظورنہ کیے جائیں انھیں تادم بھوک ہڑتال پر بیٹھ جانے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے تاکہ انھیں اور ان جیسے دنیا بھر کے انسانوں کو جو ان لفظوں کی وجہ سے مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں سے تاقیامت نجات حاصل ہوسکے۔

بیکن نے کہا تھا ’’اگر کوئی آدمی عزم و ہمت سے محروم ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس نے کام نہ کرنے کا عزم کرلیا ہے‘‘ ہمیں اس بات پر پورا یقین ہے کہ ہمارے سابق حکمران عزم و ہمت سے محروم نہیں ہیں اس لیے وہ یہ کام کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائیں گے۔ آئیں! میرے ملک کے کرپٹ، بے ایمان، جھوٹے، دھوکے باز اور کمیشن خور ہم سب مل کر فضول، لچر اور بیہودہ لفظوں سے کچھ دیرکے لیے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

پلو ٹارک نے شہنشاہ ٹارجن کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تمہاری حکومت سب سے پہلے اپنے دل پر ہونی چاہیے‘‘ ڈاکٹر آرنلڈ کہا کرتے تھے کہ ’’مجھے دولت، عزت یہاں تک کے تندرستی سے بھی یہ بات زیادہ پیاری ہے کہ نیک دل انسانوں سے روحانی تعلق قائم کروں کیونکہ شریف، سچے اور فیاض آدمیوں کے ساتھ تعلق رکھنے سے آدمی میں اعلیٰ صفات خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں۔‘‘

کنفیوشس جو قدیم چین کا عظیم فلاسفر تھا۔کہا کرتا تھا کہ ’’خدا نے ہر ایک کے ذمے کچھ فرائض لگائے ہیں، بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے فرض کوکسی لالچ یا معاوضے کے بغیر انجام دے، فرائض کی فہرست بڑی لمبی ہے کوئی شخص انھیں انجام دے یا نہ دے اسے ان کا احساس ضرور ہوتا ہے لیکن ان کے علاوہ انسان پر ایک اور فرض بھی عائد ہوتا ہے جو دوسروں کے بجائے خود اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھا جائے اور ان خوبیوں کو بڑھایا جائے جو انسان کے اپنے اختیارات میں ہیں۔

یعنی خلوص، تحمل، سنجیدگی، جفاکشی، اعتدال، قناعت، ضمیر کی اطاعت وغیرہ۔ شہنشاہ اور عظیم فلسفی مارکیوز اور لیوس نے کہا تھا ’’میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے‘‘ ہر زمانے اور ہر ملک میں ایسے آدمی موجود رہے ہیں جنھیں کسی قیمت پر خریدنا ممکن نہ تھا۔ شمالی امریکا کے ریڈ انڈین اس بات کے قائل ہیں کہ بہادر آدمی کے لیے دولت کی آرزوکرنا نہایت مکروہ فعل ہے، چنانچہ ان میں قبیلے کے سردار اکثر مفلس ہوتا ہے۔

سقراط یونان کا ایک غریب آدمی تھا ارسطائیدس کو اس کے غیر متزلزل ایمانداری کی بنا پر ’’انصاف پسند‘‘ کا خطاب ملا اینھیز کا سپہ سالار فوشین اپنی نیک نفسی کے لیے مشہور تھا۔ سکندر اعظم نے یونان کو تاخت و تاراج کرتے وقت فوشین کو اپنے ساتھ ملا لینے کی کوشش کی اس محب وطن کو دولت اور انعام و اکرام کے علاوہ ایشیا کے چار شہروں کی حکومت کا بھی لالچ دیا گیا لیکن اس نے سکندر اعظم کو کہلا بھیجا کہ ’’اگر سکندر فی الواقع میری عزت کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ مجھے ایمانداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش نہ کرے۔ ‘‘ مائیکل اینجلوا طالیہ کا بہترین نقاش تھا۔ پوپ نے اسے حکم دیا کہ وہ سینٹ پیٹر گرجا میں نقاشی کے کام کی نگرانی کرے۔

مائیکل نے یہ ذمے داری اس شرط پر قبول کی کہ اسے کام کی اجرت نہ دی جائے بلکہ صرف خدا کی راہ میں کام کرنے دیا جائے۔ مارویل کی لوح مزار پر یہ الفاظ کنندہ ہیں ’’یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے نیک آدمی محبت کرتے تھے برے آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی‘‘ ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ یہ سب باتیں، قصے کہانیاں یا تو جھوٹی ہیں یا من گھڑت یا ان سب شخصیات کا ذہنی توازن درست نہیں تھا ورنہ کرپشن، لوٹ مار کرنے اور مزے کرنے کے علاوہ زندگی کے اورکیا معنی ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔