یہ گزر جانے والے

عبدالقادر حسن  جمعرات 2 نومبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ناگزیر کا لفظ لغت سے غائب ہوتا جا رہا ہے، دنیا اس قدر تیزی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے کہ ناگزیر اشیا اور لوگوں کے بارے میں فلسفہ تبدیل ہو گیا ہے اور کوئی بھی اب ناگزیر نہیں رہا اور ان ناگزیر لوگوں اور اشیا کے بغیر ہی دنیا چل رہی ہے اور انسانوں کی گزر بسر ہو رہی ہے۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں چیز یا شخص کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں حالانکہ ہم یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ کئی ناگزیر اشیا کا یا خاتمہ ہو گیا یا ان کا متبادل مل گیا، اسی طرح ناگزیر اشخاص بھی اپنی اہمیت کا احساس دلاتے اس دنیا سے چلے گئے اور یہ فانی دنیا ان کے بغیر بھی اسی طرح رواں دواں ہے جیسے ان کے ہوتے ہوئے تھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ ناگزیر چیزوں کا خاتمہ ہوگیا اور ان کا متبادل دنیا کو اتنی آسانی سے مل رہا ہے کہ وہ اب ناگزیر اشیا کو یاد بھی نہیں کرتے اور انسانوں کی یہی فطرت ہے کہ وہ بہت جلد نئی چیزوں کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اور پرانیوں سے دوری اختیار کر لیتے ہیں کہ ان کو نئی اشیا کی چمک دمک زیادہ متاثر کرتی ہے۔

یہی حال کچھ ہماری نگوڑی سیاست اور سیاستدانوں کا بھی ہے وہ اپنے عمل دخل کے بغیر سیاست کو سیاست سمجھنے سے انکاری ہیں اور کسی بھی ایسی حکومت کا وجود ان کو کھٹکتا ہے جس میں وہ بذات خود عملاً حصہ دار نہ ہوں آسان لفظوں میں خود حکمران نہ ہوں مگر وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کا بھی یہی فرمان ہے کہ  وقت انسانوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے ۔ ہر زوال کو کمال اور ہر کمال کو زوال ہے، بات اس حقیقت کو سمجھنے کی ہے اور اس بے رحم حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں ہی عافیت ہوتی ہے اور وقت بدلنے کے انتظار میں رہنا چاہیے کہ جب آپ کی قسمت ہو گی تو یہی وقت جو آج آپ کو ناسازگار لگ رہا ہے یہی آپ کی دسترس میں ہو گا، بس صرف انتظار کی کوفت آپ کو برداشت کرنی ہے اور صبر بھی کرنا ہے ۔

بے صبرے سیاستدان صرف اقتدار کی فضاؤں میں ہی زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اقتدار بھی وہ جس میں وہ براہ راست شریک ہوں۔ سیاست میں سخت گیر موقف رکھنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں حتمی طور پر سیاست میں کوئی بات نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی مفروضوں کی بنیاد پر سیاست جاری رہ سکتی ہے، لچک دار رویہ ہی ایک سیاستدان کو کامیاب بناتا ہے۔ آج کے حلیف کل کے حریف اور کل کے حریف آج کے حلیف بھی بن جاتے ہیں اور ہم سب اس کے گواہ ہیں حرف آخر والی بات نہیں کہ اس کے بعد سیاست ختم ہو جانی ہے بلکہ سیاست میں ہر وقت حرف آغاز ہی جوڑ توڑ کی شکل میں موجود رہتا ہے، لیکن کون سمجھائے ہمارے ان’’ معصوم ‘‘ سیاستدانوں کو جو کہ آج کل کے ترقی یافتہ اور جدید ترین دور میں بھی اپنے بغیر ملکی ترقی اور بقاء کو خطرے میں سمجھتے ہیں۔

اب حالات بہت بدل چکے ہیں اور ان بدلتے حالات کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ ہمارے پرانے سیاستدان اس تیز رفتاری کا ساتھ تو نہیں دے پا رہے بلکہ سیاسی حالات کی تیز رفتاری کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جو کہ اب ان کے بس کی بات نہیں رہی، یہ حالات جس طرح بنے ہیں ان کا چلنا بھی مرضی کے تابع ہے اور یہ چلانے  والوں کی مرضی ہے کہ وہ اسے کیسے چلاتے ہیں۔ فرد واحد کی حکمرانی کا شوق بہت پرانا ہے حکمران ہمیشہ اس زعم میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی تخت پر براجمان رہیں اور انھی کے دم سے حکومت کا کاروبار چلے لیکن وہ وقت گزر گئے، اب حکومتیں سیاست کے ساتھ کاروبار کے تحفظ کے مفاد کے مطابق چلتی ہیں، یہ سیاست کا نیا اسلوب ہے اور آج کل یہی رائج ہے اسے ہی سیاسی سکہ رائج الوقت کہا جا سکتا ہے۔

اس دنیا کے لیے ناگزیر صرف اللہ کی ذات پاک ہے باقی سب فانی ہے اور ہر ایک انسان اپنا اپنا کردار نبھانے اس دنیا میں آیا ہے اور جیسے ہی اس کا کردار ختم ہوجاتا ہے وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ انسان اپنی طاقت کے نشے میں ضرور رہتا ہے اپنی بڑائی پر گھمنڈ بھی کرتا ہے، دنیا میں اکڑ کر بھی چلتا ہے زندگی گزارنے کے ایسے اسباب بھی کرتا ہے کہ اسے اس دنیا سے کبھی رخصت ہی نہیں ہونا، اس سب کے باوجود جب وقت آتا ہے تو وہ اتنا بے بس ہو جاتا ہے کہ اپنی ایک انگلی کو بھی ہلانے سے قاصر ہو جاتا ہے اس وقت اس کو رب ِ ذوالجلال کی یاد آتی ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

اس وقت اس کو اپنی گزری زندگی یاد آتی ہے وہ ناگزیر پن بھی یاد آتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا وہ ناگزیر ضرورت ہے لیکن وہ اپنے ڈوبتے وقت کے دوران ہی یہ دیکھ لیتا ہے کہ اس کی جگہ لینے کو کئی اور تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو آپ کی زندگی میںہی یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے اور نئے لوگ آپ کی ذمے داریاں ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ناگزیر سمجھے جانے والے کئی انسان اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی چلے گئے کہ سب نے خالی ہاتھ ہی جانا ہے، دنیا میں کیے گئے آپ کے اچھے برے اعمال ساتھ جاتے ہیں، کئی ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں اور بعض ناگزیروں کے بارے میں تو کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کہاں مدفون ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے عبرت کا مقام ہے اور اللہ کی جانب سے نشانیاں ہیں ہم جتنا جلد اس حقیقت کو سمجھ لیں اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔