ٹیلرسن کا ڈو مور کا مطالبہ

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 2 نومبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھارت کے تین روزہ دورے پر جاتے ہوئے تین چار گھنٹوں پر مشتمل پاکستان کا دورہ کرنے کی زحمت کی ۔ ٹیلرسن پاکستان آنے سے پہلے افغانستان کا دورہ کرچکے تھے اور اپنے پیغام رساں کے طور پر افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بھارت بھجوا چکے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ کا موقف یہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کرے اور ان کے ان اڈوں کو ختم کرے جو ٹیلرسن کے خیال میں پاکستان میں موجود ہیں اور ڈو مور کا وہی مطالبہ دہرا رہے ہیں جو وہ عرصے سے کرتے آرہے ہیں۔ ٹیلرسن نے اپنے مختصر سے دورہ پاکستان میں حکومت پاکستان سے وہی ڈومور کا مطالبہ دہرایا لیکن ان کی روایتی امیدوں کے برخلاف پاکستان نے ڈو مورکا جواب نو مور سے دیا ہے جس سے امریکی وزیر خارجہ یقینا حیران ہوں گے کہ ہمیشہ یس سر کہنے والا حکمران طبقہ اس دیدہ دلیری سے نو سر کیوں اور کیسے کہہ رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ساری دنیا کے لیے ایک ہولناک خطرہ بن گئی ہے، خاص طور پر مسلم ملکوں میں دہشت گردی روز مرہ کا معمول بن گئی ہے اور ہزاروں معصوم اور بے گناہ مسلمان اس کا شکار ہو رہے ہیں خاص طور پر پاکستان اس وبا کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے، 70 ہزار پاکستانی اب تک دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں اس حقیقت کے پیش نظر امریکا کا یہ موقف بڑا عجیب اورغیر منطقی لگتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈے موجود ہیں۔

امریکا نے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جو مہم شروع کی اس میں دھونس اور دھاندلی کے ساتھ پاکستان کو شرکت پر آمادہ کیا۔ اس سے قبل پاکستان دہشت گردی سے بچا ہوا تھا دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی مہم میں زبردستی پاکستان کوگھسیٹنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گرد طاقتیں پاکستان کے خلاف ہوگئیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی ایسی ہولناک کارروائیوں کا آغاز ہوا جس سے ہر پاکستانی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا۔ پاکستان کے ہر علاقے خاص طور پر پختونخوا میں دہشت گردی روز مرہ کا معمول بن گئی اور ہزاروں بے گناہ بچے بڑے مرد عورت سب دہشت گردی کی زد میں آتے رہے کراچی اور لاہور جیسے پرامن شہر بھی دہشت گردی کی زد میں آگئے اور کراچی اور لاہور کے پرامن عوام اس بلا سے اس قدر دہشت زدہ ہوگئے کہ نہ وہ اپنے آپ کو گھر کے اندر محفوظ سمجھتے تھے نہ گھر کے باہر۔ مائیں بہنیں اپنے بچوں اور بھائیوں کی سلامتی کے ساتھ گھر واپس آنے کی دعائیں کرنے لگیں۔

اس بلائے بے درماں کے خلاف آخرکار ہماری فوج نے ضرب عضب کے نام سے وہ آپریشن شروع کیا اور دہشت گردی کے اڈے شمالی وزیرستان کو بے حد قربانیاں دے کر دہشت گردوں سے پاک کیا۔ کیا ان حقائق سے امریکا ناواقف ہے کیا اسے علم نہیں کہ پاکستان کے 70 ہزار بے گناہ شہری اور ہزاروں فوجی اس وبا کی نذر ہوگئے؟ کیا امریکا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ اب بھی پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں اور آئے دن دہشت گردی کی کارروائیوں سے بے گناہ عوام کا جانی نقصان ہو رہا ہے، کیا امریکا اس حقیقت سے واقف نہیں کہ شمالی وزیرستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہماری مسلح افواج کو کس قدر جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

کیا امریکا اس تلخ حقیقت کو بھول گیا کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اسی نے پاکستان میں طالبان کی کاشت کی۔ کیا امریکا اس حقیقت کو بھی بھول گیا کہ دہشت گردوں کی مدر تنظیم القاعدہ اسی کی پروردہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ امریکا سمیت مغربی ملک دہشت گردی کی ایک واردات پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور مسلم ملکوں میں ہر روز ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں سیکڑوں بے گناہ مسلمان ہلاک ہو رہے ہیں؟ کیا عراق اور شام میں ہونے والی سفاک دہشت گردی سے امریکا بے خبر ہے؟ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے وہ انھی دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرتا رہا ہے جس کی صرف ایک وجہ یہ ہے کہ بشارالاسد کو روس کی حمایت حاصل ہے ۔

یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ملک پاکستان کو نظر انداز کرکے امریکا بھارت کے ساتھ پینگیں اس لیے بڑھا رہا ہے کہ بھارت چین کے خلاف ایشیا میں اس کا اتحادی ہے۔ چین ایک پرامن ملک ہے اس کی ساری توجہ اپنی اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے لیکن امریکا کا حکمران طبقہ چین کو اپنا دشمن نمبر ایک کہتا ہے اور اس کی فوجی تیاریوں کا بڑا مقصد چین کو گھیرے میں لیے رکھنا ہے چونکہ کل کا غیر جانبدار تحریک کا سربراہ بھارت آج امریکا کے ساتھ فوجی معاہدوں میں بندھ گیا ہے لہٰذا وہ اس کا یار غار ہوگیا ہے اور کل تک امریکا کی یاری نبھانے والا پاکستان آج امریکا کے لیے ناقابل اعتبار بن گیا ہے؟کیا امریکا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ بلوچستان میں ’’را‘‘  پاکستانی حکومت کے خلاف کام کر رہی ہے؟

دہشت گرد تنظیموں میں داعش سب سے زیادہ خطرناک تنظیم سمجھی جاتی ہے اور عالمی سطح پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ داعش کو امریکا اور اسرائیل کی سرپرستی حاصل ہے۔ کیا امریکا کے اعلیٰ مرتبت حکمران اس اسرار سے پردہ اٹھا سکتے ہیں کہ اسلام کا بول بالا کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں مسلم ملکوں کو تو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی ہیں اور بھارت ان کی دہشت گردی سے محفوظ ہے، مسلم ملکوں میں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور مغربی ملک دہشت گردی کی چھوٹی موٹی کارروائی پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

امریکا میں قدم قدم پر دانشوروں کی دکانیں، نائیوں کی دکانوں کی طرح کھلی ہوئی ہیں کیا ان تھنک ٹینکوں کو یہ نہیں معلوم کہ دہشت گردی کی ابتدا کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں اور سنگین مظالم سے ہوئی ہے؟ کیا بحیثیت سپرپاور امریکا نے کبھی کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی ہی میں آتا ہے اور اس کی وجہ وہ سیاسی مفادات ہیں جو اسرائیل اور بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی حمایت اور دہشت گردوں کو تحفظ دینا بلاشبہ انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے اگر امریکا پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت اور تحفظ کا الزام لگاتا ہے تو کیا اس میں ہمت ہے کہ وہ بلوچستان میں ’’را‘‘ کی طرف سے دہشت گردوں کی مدد کی مذمت کرے اور اس مدد کو روکنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔