کلبھوشن کھربندا سے ایک ملاقات

توقیر چغتائی  جمعرات 2 نومبر 2017

اٹک، اسلام آباد اورایبٹ آباد کے سنگم پر واقع حسن ابدال تاریخی اعتبار سے ایک انتہائی اہم شہر ہے جہاں سکھوں کا مشہورگردوارہ پنجہ صاحب بھی موجود ہے۔کسی زمانے میں باباگرو نانک بھائی مردانہ کے ساتھ یہاںتشریف لائے تھے اور اسی مقام پر انھوں نے ایک درخت کے نیچے قیام کیا تھا۔گردوارے سے ذرا سا دور پہاڑکی چوٹی پر بزرگ صوفی بابا ولی قندھاری کا مزار بھی واقع ہے جس کی زیارت کے لیے دوردراز سے آنے والے عقیدت مندوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ مرگلہ کی مشہور اورخوب صورت پہاڑیوں سے ہٹ کر یہ الگ پہاڑیاں ہیں جنھیں فطرت کے دشمنوں نے چوہوں کی طرح کھود کھود کر تباہ وبرباد کردیا ہے، مگر ولی قندھاری کا مزار اپنے تقدس کی وجہ سے فی الحال محفوظ تصورکیا جاسکتا ہے۔

حسن ابدال کی فطری خوبصورتی اورچھوٹی بڑی پہاڑیوں پر اگنے والے طرح طرح کے درخت یہاں سے گزرنے والوں کی آنکھوں کو جہاں ٹھنڈک بخشتے ہیں،وہاں چشموں کے کنارے بنے کھیتوں میں لگے لوکاٹ اورخوبانی کے خوش ذائقہ پھل ان کے ہونٹوں پر اپنی مٹھاس کی مہر ثبت کر دیتے ہیں۔ کراچی سے سال بھرکے بعد اپنے آبائی علاقے میں چھٹی گزارنے کے لیے جب میں حسن ابدال سے گزرتا ہوں تو یہاں کی تاریخ اور روایات کو بھی یاد کرتا ہوں اور آس پاس کے علاقے میں صدیوں سے پھیلی غربت اور ناخواندگی کو دیکھ کر مسلسل کڑھتے ہوئے یہ بھی سوچتا ہوں کہ اس علاقے میں کوئی بڑا جاگیردارانہ نظام نہ ہونے کے باوجود لوگ اب تک غلامی کی زنجیروں میں کیوں جکڑے ہوئے ہیں۔اس دفعہ جب میں حسن ابدال سے گزرا تو یہاں کے تاریخی واقعات کے ساتھ مجھے کلبھوشن بھی یاد آرہا تھا جو حسن ابدال میں ہی پیدا ہوا تھا۔

چند برس قبل جب ایک کانفرنس کے سلسلے میں دہلی جانا ہوا تو دہلی کے پریس کلب میں ایک صحافی دوست سے کہا کہ میں نے کلبھوشن سے ملنا ہے۔ اس نے اسی وقت کلبھوشن سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے آئے ہوئے ایک دوست آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ اپنی مصروفیت سے وقت نکال کرکسی سے ملنا آپ کے لیے کتنا مشکل ہے، مگر میری گزارش ہے کہ آپ ان سے ضرور ملیے گا مجھے نہیں معلوم کہ یہ آپ سے ملنے کے لیے اتنے بے تاب کیوں ہیں۔

کلبھوشن کے پاس ان دنوں کسی سے ملنے کے لیے بالکل فرصت نہیں تھی مگر انھوں نے میرے اشتیاق اور میرے صحافی دوست کی فرمائش کا بھرم رکھتے ہوئے مجھ سے ملنے کا وعدہ کر ہی لیا۔ ٹیلی فون سے فارغ ہونے کے بعد صحافی دوست نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کلبھوشن سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ تو میں نے اسے بتایا کہ وہ اور میں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کا علم مجھے چند سال قبل ایک پرانے میگزین کے صفحے سے ہوا جو کراچی میں راہ چلتے ہوئے اڑتا ہوا اچانک مجھ تک آ پہنچا تھا۔ حسب عادت جب میں نے اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا تو دوسرے بہت سارے اہم افرادکے ناموں کے ساتھ اس پر یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اس ہفتے کلبھوشن کھربندا کی سالگرہ ہے جو اکیس اکتوبر کو ضلع اٹک میں واقع ایک چھوٹے مگر مشہور شہرحسن ابدال میں پیدا ہوئے تھے۔

جب دہلی سے ممبئی پہنچا تو میرا پہلا ٹھکانا مشہور ادیب وشاعرگلزارکا گھر تھا جن سے میری ایک آدھ دفعہ پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی اور وہ میری ادارت میں چھپنے والے میگزین ’’جفاکش‘‘ کے لیے اپنی تحریریں بھی بھیجتے رہتے تھے۔ گلزار کے گھر سے فارغ ہونے کے بعد مجھے حسب وعدہ کلبھوشن کے گھر پر ہی جانا تھا۔ جب میں نے وہاں کے علاقے باندرا ویسٹ میں بنے ایک شاندار اپارٹمنٹ کی دوسری منزل کے مطلوبہ فلیٹ کے دروازے پر پہنچ کرکال بیل بجائی تو سفید کرتے اور پاجامے میں ملبوس کلبھوشن کھربندا میرے سامنے موجود تھے۔

یہ وہی شخص تھا جس نے معروف ہدایت کار جی پی سپی کی فلم ’’شان‘‘ میں سنیل دت،امیتابھ بچن،ششی کپور اورشترو گھن سنہا جیسے منجھے ہوئے اداکاروں کے سامنے ’’شاکال‘‘ کا رول ادا کرکے بالی وڈ کی فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا۔کلبھوشن کے گھر میں اس وقت تین افراد، وہ ان کی بیٹی شُرتی کھربندا اور ان کی انتہائی سادہ مزاج بیوی مہیشوری دیوی موجود تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد چائے سے شروع ہونے والی بات کھانے تک پہنچ گئی۔کلبھوشن نے جب میری زبان سے پنجابی کا وہ لہجہ سنا جو بچپن میںان کے گھر اور گلی محلے میں بولا جاتا تھا تو انھوں نے اپنی ساری مصروفیات ترک کردیں اور انتہائی جذباتی انداز میںمجھے اپنے بچپن کی وہ یادیں بتانے بیٹھ گئے جو تین چار سال کی عمر سے لے کر اب تک ان کے ساتھ سفرکررہی تھیں۔

تقسیم کی وجہ سے کلبھوشن کو بچپن ہی میں حسن ابدال چھوڑکر دہلی آنا پڑا تھا۔ اپنے والد کی نوکری کی وجہ سے شہر، شہر کی خاک چھاننے اور دہلی سے گریجویشن کے بعد انھوں نے دوستوں کے ساتھ ملکر ایک تھیٹرگروپ سے اداکاری کے آغاز کیا تھا اور پھر کولکتا منتقل ہوگئے جہاں سے ان کی زندگی کا دھارا بائیں بازوکی سیاست، فلم اور تھیٹر کے ساتھ جڑگیا۔ان دنوں بالی ووڈ میں متوازی سینما کے پلیٹ فارم سے بہت ہی اہم فلموں کا آغاز ہوا ۔ ’’نشانت‘‘ کے نام سے بننے والی ستیہ جیت رے کی فلم میں جب انھوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تو وہ متوازی سینما کی ضرورت بن گئے اور ستیہ جیت رے ہی کی فلموں ’متھن، بھومیکا‘ اور ’کل یگ‘ میں کام کرنے کے بعد ان کا شمار بالی ووڈ کے صف اول کے اداکاروں میں ہونے لگا۔

شام ڈھلنے لگی تو میں نے کلبھوشن سے جانے کی اجازت چاہی، مگر ان کااصرار تھا کہ میں ان سے دوبارہ بھی ملاقات کروں۔ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے خواہش مند تھے اور اپنی جنم بھومی حسن ابدال میں بھی آنا چاہتے تھے لیکن دونوں ممالک میں چلنے والی تعلقات کی سرد وگرم ہوائیں اور مصروفیت ان کے راستے میں رکاوٹ بنی رہیں۔ کلبھوشن کھربندا سے ہونے والی بہت ساری باتیں پھرکبھی سہی فی الحال تو ہم ان سے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ آپ جب بھی حسن ابدال آئیں ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے اس لیے کہ آپ کلبھوشن یادو نہیں کلبھوشن کھربندا ہیں۔ آپ جیسے لوگ ہی دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کوکم کر کے اس علاقے میں امن وامان کے خواب کو حقیقت میںبدل سکتے ہیں۔ ہماری طرف سے آپ کو سالگرہ مبارک ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔