پی ٹی آئی کے انتخابات اور جمہوریت کا شیر

غلام محی الدین  پير 4 مارچ 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

مثنوی مولانا روم میں ایک بُزدل پہلوان کے بارے میں حکایت ہے۔ اس حکایت میں صبرو استقامت اور بُردباری کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔

حکایت کچھ یوں ہے کہ کسی علاقے میں یہ بُرا رواج عام تھا کہ لوگ اپنے جسموں کو گودتے اور ان پر تصویریں بنواتے (آج کے زمانے میں انھیں Tatoo کہا جاتا ہے) یہ کام اُن زمانوں میں حجام کیا کرتے تھے۔ تو وہ پہلوان حجام کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اِس کے جسم پر بھی تصویر بنادی جائے۔ حجام نے پوچھا کس کی تصویر؟ وہ بولا میں شیر پہلوان ہوں۔ میرا طالع بھی اسد ہے۔ میرے شانے پر شیر کی تصویر سجے گی۔

حجام نے ابھی سوئی لے کر گُودنا شروع ہی کیا تھا کہ پہلوان پکار اُٹھا… اُف ظالم مار ڈالا۔۔۔ حجام سے بولا، ٹھہر جا، پہلے یہ بتا شیر کا کون سا عضو بنا رہا ہے؟ حجام نے جواب دیا، صاحب! دُم بنا رہا ہوں، آپ اتنے بے قرار کیوں ہوتے ہیں‘ پہلوان نے کہا درد برداشت سے باہر ہے، تو دُم نہ بنا، دُم کے بغیر بھی شیر دلیر ہوتا ہے۔ حجام نے دوبارہ کام شروع کیا تو پہلوان پھر پکارا اُٹھا، اُستاد میری تو جان نکلی جارہی ہے… اب کیا بنا رہے ہو، حجام نے بتایا کان بنا رہا ہوں، تم ذرا صبر سے بیٹھو تو… پہلوان نے چیخ کر کہا، کیا تو نہیں جانتا کہ کُتے کے کان اس لیے کاٹ ڈالتے ہیں کہ وہ زیادہ مُہیب نظر آئے، تو ایسا شیر بنا جس کے کان نہ ہوں تاکہ دیکھنے والا اسے دیکھ کر ڈر جائے۔

حجام نے جب پھر سوئی سنبھال کر کام شروع کیا تو پہلوان پھر چیخ مار کر پوچھنے لگا کہ اب کیا بنا رہا ہے ظالم؟ حجام نے جواب دیا، ’’پیٹ بنا رہا ہوں شیر کا۔‘‘ پہلوان کراہتے ہوئے بولا، اگر بنا پیٹ کے شیر بنایا جائے تو کیا حرج ہے؟ حجام نے یہ بزدلانہ بات سُن کر اپنی سوئی زمین پر دے ماری‘ سیاہی کی دوات توڑ دی اور کہنے لگا، تم نے کبھی دیکھا یا سُنا ہے کہ کوئی شیر بے دُم، بے کان اور بنا پیٹ کے بھی ہوتا ہے؟ تو سوئی کی نوک سے کانپتا ہے اور اپنے آپ کو شیر بھی کہتا ہے۔

ہمارے ملک میں جمہوریت کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا برتاؤ ہوتا رہا ہے۔ میدان سیاست کے ہمارے پہلوان اس بات کے دعویدار تو ہیں کہ جمہوریت اُنھیں کے دم قدم سے سانس لیتی ہے، لیکن اس حکایت کے پہلوان کی طرح جمہوریت کی تصویر مکمل نہیں ہونے دیتے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کے شیر کی دُم، کان، پیٹ یا دیگر اعضاء نہ بھی ہوں تو شیر کی شان و شوکت اور ہیبت میں فرق نہیں آتا۔

ہماری اہم ترین سیاسی پارٹیوں کی تاریخ میں پارٹی کے اندر انتخابات کی کوئی روایت نہیں۔ ہر پارٹی کسی خاندان کی آکسیجن پر زندہ ہے، آکسیجن کی ترسیل روک دیں، پارٹی بھی ختم ہوجائے گی۔ ان پارٹیوں کے وارثوں کو بھی اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اگر خدانخواستہ انھیں جانا پڑگیا تو پارٹی کا کیا بنے گا بلکہ ان کی اپنی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ رہے کہ کوئی سیاسی جماعت ان کے سکہ بند قائدین کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی اور واقعی حیرت انگیز طور پر ان پارٹیوں کے کارکنوں کی غالب اکثریت شعوری سطح پر بھی کسی نظریے یا پروگرام کے کسی تصور سے آشنا نہیں، سوائے اس کے کہ ان کی سیاست کی کُل کائنات زندہ باد اور مردہ باد کے دو نعروں کے درمیان آباد ہے۔

ہماری سیاسی پارٹیوں کی توقعات کے برعکس اور اندیشوں کے عین مطابق پاکستان تحریک انصاف نے اپنی پارٹی کے اندر ہماری آج تک کی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ مؤثر اور حقیقی انتخابات مکمل کرنے کا کام کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ ان انتخابات کے حوالے سے نہ صرف مخالفین کی سطح پر بلکہ پارٹی کے اندر بھی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے اور یہ سب چھپا ہوا نہیں تھا بلکہ اس پر اچھا خاصہ بحث مباحثہ اور گفت و شنید ہوتی رہی۔

کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا، کچھ ہمدردوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ فی الحال اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ ملتوی کردیا جائے کیونکہ عام انتخابات سر پر ہیں، لیکن یہی فرق ہوتا ہے مولانا رومی کے پہلوان اور کسی حقیقی دلیر آدمی میں کہ وہ جب کسی بات پر یقین رکھتا ہے تو پھر اس پر عمل میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ کسی ایسے شخص کے جمہوریت سے وفاداری کے دعوؤں پر یقین کرلیا جائے جو خود اپنی پارٹی پر پہرے دار کی طرح بیٹھا ہو کہ کہیں جمہوریت کی ہوا اس تک نہ پہنچ جائے۔

تحریک انصاف کے انتخابات نے حریف جماعتوں کے لیے بہت مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے۔ جس بات کی وہ توقع نہیں کررہے تھے وہ نہ صرف ہوگئی ہے بلکہ بہت غیر مناسب وقت پر ہوئی ہے۔ اس مضحکہ خیز صورت حال کا مشاہدہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر اس موضوع پر ہونے والے ٹاک شوز میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے مقابل آنے والے ہماری دو بڑی پارٹیوں کے رہنمائوں کے لیے پارٹی کے اندر اس انتخابی عمل کی تکمیل کے خلاف دلائل نہیں ملتے، دوسری جانب یہ لوگ ہر قیمت پر اس کی مخالفت کی قسم کھا کر پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔

صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ چند روز پہلے جب یہ خبر بالکل تازہ تھی تو غالباً ہمارے ہی چینل پر راولپنڈی کی ایک اہم شخصیت کو شکست دینے کا کارنامہ سرانجام دینے والے ہمارے ایک سیاستدان نے اس موضوع پر گفتگو کا آغاز یوں کیا کہ، جی، پی ٹی آئی کی تو بات ہی چھوڑیں، یہ خوابوں میں رہنے والی پارٹی ہے، اسے کسی بات کا کوئی پتہ نہیں، آج یہ کچھ کہتے ہیں، کل کچھ اور کہہ دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ جب تحریک انصاف کی نمایندگی کرنے والے صاحب نے اس طرز کلام پر اعتراض کیا تو فرمانے لگے، اچھا جی اچھا، ٹھیک ہے، ہم آپ کی پسند کی بات کرلیتے ہیں، عمران خان فرشتہ ہے، پی ٹی آئی بڑی اصول پسند جماعت ہے، اس سے بہتر پارٹی کوئی ہو ہی نہیں سکتی‘ اور اسی طرح کی کئی اور باتیں۔ تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پروگرام کے میزبان نے صرف انتخابی عمل پر رائے جاننے کی کوشش کی، کیا اس کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا؟ کیا بعید کہ ہمارے یہ رہنما پالیسی سازی کے عمل میں بھی اسی قسم کا رویہ اختیار کرتے ہوں۔

پی ٹی آئی کے انتخابات پر سوال کا انتہائی مناسب جواب اتنا سا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے اچھی کوشش کی گئی ہے، اب دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ پارٹی کے اندر انتخابات کے اصول پر عمل کریں۔ میرا خیال ہے کہ ایسی بات سے آپ کا کوئی ووٹر آپ سے نہیں بھاگے گا، ہاں اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ ایک اچھے عمل کی مخالفت آپ کے کارکنوں کو آپ سے دور کردے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہر کسی نے پانچ چھ جگہوں پر انتخابات کے موقع پر ہونے والی مارا ماری پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ کاش ہم اپنے آپ میں مخالف کے کسی عمل کے مثبت پہلو کو سراہانے کی جرأت اور ہمت پیدا کرنے کے قابل ہوجائیں۔

پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات سے خواہ کتنی ہی نظریں چرائی جائیں، یہ بات تو بہرحال ماننی پڑے گی کہ اس سے دوسری پارٹیوں پر اپنے اندر جمہوریت لانے کا دبائو بڑھے گا۔ کم از کم انھیں یہ تو کرنا ہی ہوگا کہ کوئی ایسا انتخابی طریقہ وضع کریں، کوئی اس طرح کا بندوبست کریں کہ ان کی دائمی قیادت پارٹی انتخابات کے باوجود اپنے سنگھاسن پر قائم رہے۔ سچ پوچھیں تو اصل بات یہی ہے کہ جمہوریت کے شیر کی تصویر بالکل مکمل ہونی چاہیے۔ اس کا کوئی بھی عضو کم نہیں ہونا چاہیے۔ خواہ اس کے لیے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ برداشت کرنی پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔