ہالی وڈ: ویژول ایفیکٹس انڈسٹری مالی مشکلات سے دوچار

م ۔ ع  منگل 5 مارچ 2013
مالی مسائل کی وجہ سے گذشتہ چند ماہ میں فلم اور گیمنگ کے ویژول ایفیکٹس اسٹوڈیوز نے ملازمین کی بڑی تعداد کو ملازمتوں سے فارغ کیا۔  فوٹو : فائل

مالی مسائل کی وجہ سے گذشتہ چند ماہ میں فلم اور گیمنگ کے ویژول ایفیکٹس اسٹوڈیوز نے ملازمین کی بڑی تعداد کو ملازمتوں سے فارغ کیا۔ فوٹو : فائل

24 فروری کی شام جب بالی وڈ کے ڈولبی تھیئٹر میں اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب جاری تھی تو اسی وقت تھیئٹر کے باہر سڑک پر ویژول ایفیکٹس (VFX) انڈسٹری سے متعلق لوگ جمع تھے۔

ان کے اجتماع کا مقصد اس اہم ترین انڈسٹری کو درپیش مالی مسائل سے متعلق آگاہی پیدا کرنا تھا۔ ویژول ایفیکٹس انڈسٹری ہالی وڈ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ Avatar، Titanic، The Avengers، ہیری پوٹر سیریز سمیت متعدد شاہ کار فلموں کی فقید المثال کام یابی ویژول ایفیکٹس ہی کی رہین منت تھی۔

ویژول ایفیکٹس کی تخلیق کا بزنس اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت منہگا ہے۔ ایک VFX اسٹوڈیو چلانے کے لیے ماہر ترین آرٹسٹ، کمپیوٹر سائنٹسٹ اور دیگر ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جدید ترین ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر بھی درکار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کاروبار کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ فلم اسٹوڈیوز اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ویژول ایفیکٹس کے لیے مخصوص کردیتے ہیں جب کہ VFX اسٹوڈیو عام طور پر طے شدہ معاوضے پر کام کرتے ہیں۔ فلم اسٹوڈیوز انھیں فلم کے نفع میں سے کوئی ادائیگی نہیں کرتے جب کہ ویژول ایفیکٹس کی بنیاد پر وہ فلم پر لگائے گئے سرمائے سے کئی گنا زیادہ منافع کماتے ہیں۔

مالی مسائل کی وجہ سے گذشتہ چند ماہ میں فلم اور گیمنگ کے ویژول ایفیکٹس اسٹوڈیوز نے ملازمین کی بڑی تعداد کو ملازمتوں سے فارغ کیا۔ گذشتہ ماہ Babe، The Golden Compassاور حال ہی میں چار آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی Life of Pi جیسی فلموں کے ویژول ایفیکٹس تخلیق کرنے والے اسٹوڈیو۔Rhythm and Hues کی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ دیوالیہ ہونے کی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ علاوہ ازیں مالی مشکلات کے پیش نظر Pixomondo، German VFX house جس نے Hugo کے لیے ویژول ایفیکٹس کا آسکرایوارڈ جیتا تھا، نے لندن اور ڈیٹرائٹ میں واقع اپنے دفاتر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بہت کم منافع کی وجہ سے VFX اسٹوڈیوز کے مالی مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں تاہم ہالی وڈ کے فلم اسٹوڈیوز اس اہم ترین انڈسٹری کو نظر انداز کررہے ہیں۔ اس کی ایک مثالی اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب کے دوران نظر آئی۔ 24 فروری کی شام کو Life of Pie جو چار آسکرایوارڈ جیتے، ان میں ویژول ایفیکٹس کا آسکر بھی شامل تھا۔

اس موقع پر Rhythm and Hues میں بصری تاثرات کے شعبے کے سربراہ بل ویسٹن ہوفر کو اسٹیج پر آکر ایوارڈ وصول کرنے کی دعوت دی گئی۔ آسکر کا مجسمہ تھامنے کے بعد بل نے اپنی تقریر میں جیسے ہی اپنی کمپنی کو درپیش مالیاتی مسائل کا ذکر کرنا شروع کیا تو اسی وقت تیز آواز میں موسیقی بجاکر انھیں اسٹیج سے اترنے پر مجبور کردیا گیا۔ بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی اسی فلم کے حصے میں آیا تھا۔

ڈائریکٹر اینگ لی نے بیسٹ ڈائریکٹر کا ایوارڈ وصول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں اس فلم کے شان دار ویژول ایفیکٹس تخلیق کرنے والی کمپنی کا ذکر تک کرنے کی زحمت نہیں کی، جب کہ اس فلم کی کام یابی اور آسکر کی دوڑ میں شمولیت میں ویژول ایفیکٹس کا کلیدی کردار تھا۔ ان دو واقعات نےVFX انڈسٹری سے متعلق لوگوں میں مزید مایوسی پھیلادی ہے۔

اس کے بجائے اینگ لی نے کہا کہ ویژول ایفیکٹس پر آنے والی لاگت کم ہونی چاہیے۔ اینگ لی کے اس بیان پر VFX کمیونٹی نے انھیں ایک کھلا خط بھیجا ہے جس میں ان عوامل کا ذکر کیاگیا ہے جن کی بنیاد پر ویژول ایفیکٹس کی تخلیق ایک مہنگا کام ہے، علاوہ ازیں ان حالات کا بھی ذکر کیاگیا ہے جن حالات میں VFX اسٹوڈیوز اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔

ہالی وڈ پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر فلم اسٹوڈیوز اور حکومت نے VFX انڈسٹری کے مسائل پر توجہ نہ دی تو ویژول ایفیکٹس تخلیق کرنے والے بڑے اسٹوڈیوز دیوالیہ ہوجائیں گے جس سے سب زیادہ فلم انڈسٹری متاثر ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔