روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کی شرائط

ایڈیٹوریل  جمعـء 3 نومبر 2017
روہنگیا مسلمانوں کو کاکسس بازار کے نواح میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فورٹیفائی

روہنگیا مسلمانوں کو کاکسس بازار کے نواح میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فورٹیفائی

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے برما سے سرحدی دریا ’’ناف‘‘ عبور کر کے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی ایک تصویر جاری کی ہے جس میں دو سفید داڑھی والے نحیف و نزار مردوں کو دکھایا گیا ہے جن میں سے ایک نے ایک نوجوان لڑکے کا سہارا لے رکھا ہے جب کہ دوسرے نے کندھے پر رکھے ایک ڈنڈے کے ایک سرے پر لٹکنے والے ٹوکرے میں ایک کمسن بچے کو بٹھا رکھا ہے اور وزن برابر کرنے کے لیے دوسرے سرے پر ایک بوری باندھ رکھی ہے۔ دوسرا سفید ریش اوپر سے ننگا ہے کمر میں پٹکا باندھ رکھا ہے، یہ دونوں دریا کے تقریباً وسط میں پہنچ چکے ہیں جب کہ ان کے پیچھے دوسرے کنارے پر چند خواتین اور چھوٹے بچے دریا میں اترنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ادھر برما یعنی میانمار کے دارالحکومت ینگون (سابقہ رنگون) سے سرکاری اعلان میں بنگلہ دیش پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ میانمار سے جانے والے روہنگیا باشندوں کو واپس میانمار بھجوانے میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کو کاکسس بازار کے نواح میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ واضح رہے روہنگیا مسلمانوں نے میانمار میں اپنے خلاف ظلم و ستم میں اضافہ سے تنگ آ کر امسال اگست میں اجتماعی طور پر ترک وطن شروع کر دیا حالانکہ اس سے پہلے بھی روہنگیا مسلمان اپنی بستیوں کے جلائے جانے پر جان بچا کر ملک سے فرار ہوتے رہے ہیں۔ بدھ ریاست میانمار میں فوج نے اقلیت روہنگیا مسلمانوں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن شروع کر دیا جس کے بعد ملک سے فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔

بتایا گیا ہے گزشتہ دو ماہ کے دوران چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان جان بچا کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں، تاہم اس کے ساتھ ہی عالمی برادری کی طرف سے میانمار حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہ کرے اور ان کے لیے ملک کے حالات کو اتنا خراب نہ کرے کہ انھیں گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی میانمار حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ جن لوگوں پر شہریت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے انھیں واپس قبول کیا جائے۔ میانمار حکومت کا روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں دعویٰ رہا ہے کہ یہ لوگ میانمار کے شہری ہی نہیں ہیں بلکہ وہ بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر کے میانمار آئے ہوئے لوگ ہیں اس وجہ سے وہ میانمار کی شہریت کے اصولوں پر پورا ہی نہیں اترتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں میانمار میں پوری طرح قبول نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ روز میانمار حکومت کے سرکاری ترجمان زائے ہٹے نے کہا کہ ڈھاکا حکومت روہنگیا کی واپسی پر روڑے اٹکا رہی  ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش ان کی واپسی کی رکاوٹیں دور کر دے تو انھیں میانمار میں واپس قبول کیا جا سکتا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش تو پہلے ہی روہنگیا مہاجرین سے تنگ ہے‘ وہ انھیں واپس برما بھجوانے سے کیوں ہچکچائے گا‘ اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ برما کی حکومت روہنگیا مہاجرین کی واپسی میں سنجیدہ نہیں ہے اس لیے وہ بنگلہ دیش حکومت پر الزامات عائد کر رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔