شرافت کی سزا یا قانون کی بالا دستی؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 3 نومبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آج مجھے چار، سوا چارسال بعد مولانا ابو حفص غیاث الدین صاحب کے بارے میں یہ چند الفاظ لکھنا پڑ رہے ہیں۔ وہ عاشقِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم بھی ہیں اور تحریکِ ختمِ نبوتؐ کے مجاہد بھی۔اُن کے صاحبزادگان حافظِ قرآن ہیں۔مئی 2013ء کے عام انتخابات کا میدان لگا تو مولانا غیاث الدین ایک بار پھر قسمت آزمائی کے لیے انتخابی سیاست میں کُود پڑے۔ وہ کئی سال پہلے بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہُوئے تھے۔ اس کے بعد وہ کئی بار میدانِ انتخاب میں اُترے مگر ہر بار ہار گئے۔ تقریباً سوا چار سال قبل منعقد ہونے والے عام انتخابات میں انھیں مسلم لیگ نون کا ٹکٹ مل گیا تھا؛ چنانچہ وہ بھاری ووٹوں سے فتح سے ہمکنار ہُوئے۔

اُن کی جیت میں میاں محمد نواز شریف کے نام اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے دانیال عزیز صاحب نے بھی مرکزی اور بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ دانیال عزیز صاحب نے، جو آج وفاقی وزیر بھی ہیں اور جناب نواز شریف کے معتمد بھی، مولانا غیاث الدین کو الیکشن کمپین کے لیے اپنی گاڑیاں بھی فراہم کی تھیں کہ مولانا صاحب کے پاس تو ذاتی موٹر سائیکل بھی نہیں تھی۔ جواب میں مولانا موصوف کی شعلہ بیانیاں دانیال عزیز کے بہت کام آئیں۔ انھوں نے الیکشن کمپین میں چوہدری دانیال عزیز کی قابلیتوں، سیاسی تجربات اور تعلیمی صلاحیتوں کا ذکر جس بلند اور دلکش انداز میں کیا تھا، سُننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ تقاریر سُن کر ووٹر دانیال عزیز کی طرف کھنچتے چلے آئے تھے۔

مولانا غیاث الدین صاحب پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تو سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بہت خوشی ہُوئی تھی۔ وہ ایک غریب آدمی ہیں اور غریبوں سے محبت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ساری عمر دینِ اسلام کی خدمت کرتے گزاری ہے (آپ ’’شہادت العالمیہ‘‘ کے سند یافتہ ہیں)  زندگی مساجد اور مساجد کے حجروں میں بیت گئی ہے۔ حصولِ معاش کے سلسلے میں کبھی ایک مسجد کے خطیب کی حیثیت میں زندگی گزری ہے تو کبھی دوسری مسجد میں خطابت کرتے ہُوئے۔ایسا بھی ہُوا کہ وہ ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے گئے تو مسجد کے منتظمین اور ’’مالکان‘‘ نے انھیں نہ صرف یہ کہ جمعتہ المبارک نہ پڑھانے دیا بلکہ نہائیت بدسلوکی سے انھیںمسجد ہی سے نکال دیا۔ یہ ایک ایسا گھاؤ ہے جو مولانا غیاث الدین کے دل پر آج بھی نقش ہے۔

مولانا صاحب نے مگر ہمت نہ ہاری اور علیحدہ سے اپنی ایک چھوٹی سی، غریبانہ سی مسجد تعمیر کر لی۔ اب وہ خود ہی اس کے خطیب تھے، خود ہی امام اور خود ہی خادم بھی۔ اچھی نیت اور دین سے گہری محبت کے کارن اُن کی مسجد اور مدرسہ تیزی سے آباد ہوتے چلے گئے۔ مسجد سے متصل ہی انھوں نے ایک غریبانہ سا گھر بنا لیا تھا۔ یوں وہ مسجد کے کُل وقتی خادم بن گئے تھے۔ پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جس عظیم الشان مسجد سے انھیں آخری بار غیر مناسب انداز میں نکالا گیا تھا، اُس مسجد کی رونقیں تو رفتہ رفتہ ماند پڑتی چلی گئیں اور مولانا غیاث الدین صاحب کی سادہ سی، درویشانہ مسجد میں جمعہ کو تِل دھرنے کو بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔

مولانا صاحب علی پور شریف کے مشہور روحانی خانوادے کے مریدِ باصفا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مجھے دینی، دنیاوی اور سیاسی اعتبار سے آج تک جتنی بھی چھوٹی موٹی کامیابیاں ملی ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی کرم نوازیوں کے بعد میرے مُرشد کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں مولانا غیاث الدین صاحب رکن پنجاب اسمبلی بن گئے تھے۔ زندگی مگرنہایت دیانتدارانہ گزاری اور یہ ثابت کر دیا کہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو کر بھی ایک عالمِ دین اپنے دامن کو پاکیزہ رکھ سکتا ہے۔

انھوں نے بہت سے ترقیاتی کام کروائے، گلیاں اور سڑکیں تعمیر کراوئیں اور کئی لوگوں کو سرکاری ملازمتیں بھی دلوائیں لیکن کرپشن میں خود کو آلودہ نہ ہونے دیا،حالانکہ وہ چاہتے تو بہت سا مال بنا سکتے تھے لیکن نہ اُن کا مسجد سے متصل حجرہ بدلا، نہ کوئی انھوں نے کار خریدی، نہ کوئی پلاٹ بنایا اور نہ کوئی نیا گھر۔ غالباً یہی اُن کا سب سے بڑا ’’گناہ‘‘ تھا۔ انھوں نے اسمبلی ممبر ہوتے ہُوئے بھی کبھی اپنی مسجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ دینا فراموش نہ کیا۔ اُن کی حق گوئی سے سب ہی نالاں تھے۔ یہ بھی اُن کا ’’گناہ‘‘ شمار کیا گیا۔ مولانا غیاث الدین نے سیاست تو سیکھ لی تھی لیکن منافقت نہ سیکھ سکے۔  فریب کاری کے راستے پر چلنا شائد اُن ایسے مستند عالمِ دین کے لیے ممکن نہیں تھا۔ وہ کسی قبضہ گروپ کا دست و بازو بنے نہ ہی کسی مخالف مسلک کی مسجد پر قابض ہُوئے۔ ان آلائشوں سے دُوری بھی اُن کا ’’گناہ‘‘ بن گیا تھا۔

عوام سے کبھی رابطہ نہ توڑنے ہی کانتیجہ تھا کہ طویل مدت کے بعد مولانا غیاث الدین صاحب دوسری بار،سوا چار سال پہلے، حلقہ پی پی 133 سے رکن پنجاب اسمبلی بن گئے۔ اُن کی کامیابی دراصل حلقے کے غریبوں کی کامیابی تھی۔ پہلے دن ممبری کا حلف اٹھانے اسمبلی پہنچے تو پورے پنجاب سے وہ واحد رکن تھے جو کسی دوست کی موٹر سائیکل کے پیچھے سوار ہو کر ایوان میں پہنچے تھے۔ اِس درویش صفت ایم پی اے کی اس سادگی کا چرچا میڈیا میں بلند آواز سے کیا گیا تھا۔ اِن صفحات پر ہم نے بھی اُن کے اِس عمل کی تحسین کی تھی اور توقع رکھی تھی کہ وہ آیندہ پانچ سال بھی اِسی سادگی اور درویشی پر قائم رہیں گے۔ یہ سادگی اور غربت بھی اُن کا ’’گناہ ‘‘ بن گئی کہ پچھلے دنوں اُن کے ایک بیٹے کو پورے ضلعے کی پولیس نے گرفتار کیا۔

الزام لگایا کہ ایم پی اے مولانا غیاث الدین کے بیٹے نے مقامی اسپتال کے ایک ڈاکٹر پر تشدد کیا ہے۔ حالانکہ یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن ملزم کو جس طرح ضلع نارووال کی ساری پولیس نے اکٹھا ہو کر گرفتار کیا، یوں لگتا تھا جیسے ماڈل ٹاؤن سانحہ کا اصل ملزم یہی ہے۔ اگرچہ گرفتاری کے چند گھنٹے بعد ہی ملزم کی ضمانت ہو گئی کہ ساری تحصیل کے تقریباً تمام وکلا حضرات نے مقامی انتظامیہ کے خلاف سخت احتجاج کیا کہ مولانا صاحب کے بیٹے کو وکیل کے چیمبر میں ہونے کے باوجود کیوں اور کیسے گرفتار کیا گیا؟ اِس سے پہلے مقامی سطح پر کبھی اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ ایم پی اے کا کوئی بھائی، بیٹا یا رشتہ دار اتنا ذلیل کر کے گرفتار کیا گیا ہو !! مولانا غیاث الدین کا مگر ’’گناہ‘‘ اور ’’قصور‘‘ یہ ہے کہ انھوں نے دولت بنائی نہ بندوقیں اکٹھی کیں اور نہ ہی مقامی سطح پر دہشت کا ماحول قائم کیا۔ وہ شریف مولوی تھے اور بدستور شریف مُلّا ہی رہے۔

ممکن ہے اُن کے بیٹے کی بھی کوئی غلطی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مقامی ڈاکٹر پر تشدد کی شکائیت بھی جینوئن ہی ہو لیکن پولیس کی طرف سے مولانا صاحب، اُن کے خاندان اور اولاد کو جو سزا دی گئی ہے، یہ سراسر زیادتی ہی کہی جائے گی۔ مولانا غیاث الدین کو شکوہ اس بات کا بھی ہے کہ وہ حکومتی جماعت کے معزز رکن ہیں اور اُن کے اپنے ضلعے کے دو طاقتور وفاقی وزیر بھی ہیں مگر اس کے باوجود کسی نے اُن کی گزارشات پر کان نہ دھرا۔ وہ تو شرافت کے مارے اسمبلی میں تحریکِ استحقاق بھی پیش نہ کرسکے۔

گھمبیر لہجے میں بس یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: ’’میری اولاد کو جس طرح سرِ بازار رُسوا کیاگیا ہے، یہ میری غربت و شرافت کی سزا ہے یا ’’کسی ‘‘نے انصاف کا بول بالا کیا ہے؟‘‘ بعض واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مولانا صاحب نے پنجاب اسمبلی میں اپنے ضلع کے 186 سرکاری اسکولوں کو ایک این جی او کے حوالے کرنے کے خلاف جو سخت احتجاج کیا ہے، اِس اقدام سے بھی بعض طاقتور لوگ اُن سے ناراض ہو گئے ہیں۔ مولانا غیاث الدین نے میڈیا میں ایک نجی اسکول، ایک گرلز ہائی اسکول اور شرقپور شریف کے ایک اسکول کی انتظامیہ کے بارے میں جو نئے انکشافات کیے ہیں، اس نے بھی تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ اس بنیاد پر بھی اُن سے ناراض ہو گئے ہوں۔ اگر تو معاملہ صرف اسکولوں کا ہے تو اس بارے میں PEF(پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن) اور رانا مشہود صاحب کو فوری (مولانا غیاث الدین کی شکایات کے پیشِ نظر) اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اور اگر معاملہ کوئی ’’دوسرا‘‘ ہے تو مولانا صاحب کو حکمت اور دانائی سے سیاست کی گاڑی آگے بڑھانی چاہیے۔ اس لیے کہ ابھی اُن کے حلقے کے غریبوں کو اُن کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔