سمندر میں موجود آسیبی جال آبی حیات کیلیے موت کا شکنجہ بن گئے

آفتاب خان  جمعـء 3 نومبر 2017
شکار کے دوران ناکارہ ہونیوالے بھاری بھر کم جال کو ماہی گیر اضافی بوجھ سمجھ کرسمندر برد کرکے جان چھڑالیتے ہیں۔ فوٹو : فائل

شکار کے دوران ناکارہ ہونیوالے بھاری بھر کم جال کو ماہی گیر اضافی بوجھ سمجھ کرسمندر برد کرکے جان چھڑالیتے ہیں۔ فوٹو : فائل

 کراچی: گہرے سمندرکی تہہ میں موجود آسیبی جال آبی حیات کے لیے اذیت ناک موت کا باعث بن رہے ہیں۔

شہر قائد کے کیماڑی،بابابٹ ،شمس پیر،ککا ویلج ، ابراہیم حیدری ،ریڑھی گوٹھ سمیت مختلف جزائراور ساحلی مقامات جبکہ سندھ بلوچستان کے ساحلوں سے یومیہ سیکڑوں چھوٹی بڑی لانچیں مچھلی کے شکار کے لیے سمندرکا رخ کرتی ہیں،مچھلی کو پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والا جال شکار کے دوران مختلف وجوہات کی بنا پر ناکارہ ہوجاتا ہے۔

ماہی گیر اس اضافی بوجھ کوکشتی پر لادنے کے بجائے اسے سمندر برد کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے،جال پھینکنے والا ماہی گیر اس بات سے قطعا لاعلم ہوتا ہے کہ یہی بظاہر بے ضرردکھائی دینے والا یہ جال گہرے پانیوں میں معصوم آبی مخلوق کیلیے ایک ایسا گرداب بن جاتا ہے جس میں پھنسنے والا کچھوا،لابسٹر ،ڈولفن،کیکڑا آزاد ہونے کی کوشش میں مزید پھنستا ہی چلاجاتاہے جبکہ جان بوجھ کر سمندر میں پھینکے جانے کے علاوہ حادثاتی طور پر ٹوٹ کر، ہاتھ سے چھوٹ کر یا پھر زیرآب چٹانوں اور پتھروں میں پھنس کر بھی یہ جال سمندر میں رہ جاتے ہیں۔

ماہرین سمندری حیات کا کہنا ہے کہ ہزاروں من گھوسٹ گیئر یعنی آسیبی جال اس وقت پاکستان کے گہرے سمندر میں موجود ہیں،ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور میں مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے باریک پلاسٹک اور کچھ حد تک فائبر سے بننے والا جال مونو فلیمنٹ فشنگ نیٹ کہلاتا ہے جو ترک کیے جانے والے جال کے مقابلے میں جلدی ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اس ٹوٹے ہوئے جال کی سمندر سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ اس طرح یہ جال آبی حیات کے لیے خطرے کا سبب بن جاتاہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس جال پر پابندی یا روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ صرف آگاہی کے ذریعے ہی سمندری حیات کو ان آسیبی جال سے بچایا جا سکتا ہے،مقامی سطح پر ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ مچھیرے اس کو بھوت جال کہتے ہیں،یہ جال سمندر میں ری سائیکل ہوکر ختم نہیں ہوتا،پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کی طرح گھلنے کے بجائے عرصہ دراز تک سمندر کی تہہ میں موجود رہتا ہے۔

دوسری جانب ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوائز معظم خان کے مطابق2سال قبل مالدیپ نے بحرہند کے گہرے سمندروں میں نایاب کچھوے اولیو ریڈلی کے نام سے منسوب پروگرام شروع کیا،کئی ممالک پرمشتمل اس گروپ نے آسیبی جال کو سمندر سے باہر نکالنے کیلیے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں انجام دیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے توسط سے پاکستان اس جال کوسمندر سے نکالنے کیلیے مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنے کے بعد اس گروپ کا حصہ بن چکا ہے ، اسی سلسلے میںکراچی کے قرب میںواقع چرنا اور اسٹولا جزائر پر بھی جال کی صفائی کیلیے کافی کام کیا گیا،کچھ عرصہ قبل کراچی کے ساحلی مقام سینڈز پٹ سے 6 سے 7 ٹن آسیبی جال نکالا جاچکا ہے۔

گہرے پانیوں میں نوجوان مہم جو گہرے پانیوں میں غوطے لگانے کے دوران سمندری حیات کو بچانے کیلیے اکثر و بیشتر ان جالوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، طویل وعریض سمندر میں بیشتر مقامات ان آسیبی جالوں کے گڑھ بن چکے ہیں،سطح آب پر تیرنے والے کچھوئوں کی کچھ اقسام کے علاوہ ملان ،اورماڑہ اور گوادر سمیت وہ مقام جہاں لوبسٹرکی افزائش نسل ہوتی ہے،سب سے زیادہ نقصان سے دوچار ہے اور وہاںکے ماہی گیروں نے حکومت پاکستان سے اس جال پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھر ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک جال سے سمندراوراس جڑے آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکاہے،اس جال پر فوری پابندی عائد کردی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔