اپوزیشن کا موقف تبدیل؛ حکومت حلقہ بندیوں کا بل قومی اسمبلی سے منظور نہ کرا سکی

نمائندہ ایکسپریس  جمعـء 3 نومبر 2017
اوپر سے ہدایات آئی ہیں تو شرافت سے سوری کہہ دیں، اچکزئی، تیل کی قیمتوں میں اضافے پر بھی احتجاج، حکومتی جواب مسترد۔ فوٹو : فائل

اوپر سے ہدایات آئی ہیں تو شرافت سے سوری کہہ دیں، اچکزئی، تیل کی قیمتوں میں اضافے پر بھی احتجاج، حکومتی جواب مسترد۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: قومی اسمبلی میں حکومت نے نئی حلقہ بندیوں کیلیے آئینی ترمیمی بل پیش کردیا تاہم نمبر گیم پورے نہ ہونے پر منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

گزشتہ روز وزیر قانون زاہد حامد نے آئینی بل ایوان میں متعارف کرایا تو اپوزیشن نے بل پر اعتراضات اٹھائے جبکہ بل کی منظوری کیلیے 2 تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان بھی موجود نہیں تھے کیونکہ اس وقت ایوان میں صرف حکومت اور اپوزیشن کے ملاکر 160 کے قریب ارکان موجود تھے۔

پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ بل کیلیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اسے عجلت میں نہ لایا جائے بلکہ پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرایا جائے، اس بل کو لانا غیر آئینی ہوگا، اس صورت سپورٹ نہیں کر سکتے، تمام جماعتوں نے اسپیکر کی موجودگی میں بل پر اتفاق کیا، یہ معاملہ کبھی سی سی آئی میں لے جانے کی بات کسی جماعت نے نہیں کی، یہ کہنا کہ آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ درست نہیں۔

تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری نے کہا کہ ہماری جماعت نے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں آئینی ترمیم کی حمایت کی لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات نظرانداز کرے، اگر کسی کی رائے بلڈوز ہوئی تو یہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائیگا۔

ایم کیوایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج پر ملک میں آوازیں اٹھیں، اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا، کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا کہ یہ ایجنڈا سب کی مشاورت سے آیا ہے، اگر ان کو اوپر سے ہدایات آئی ہیں تو شرافت سے سوری کہہ دیں، اگر کوئی مجبوری آئی ہے تو بتا دیں، وعدے سے پیچھے ہٹنے کا یہ طریقہ نہیں ہے، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ کل تک سب کا آئینی ترمیم پر اتفاق تھا، اب اچانک ایک پارٹی کو اعتراض ہو گیا۔

اس موقع پر حکومت نے اپوزیشن کا اعتراض دور کیے بغیر آئینی بل پیش کیا تو پیپلزپارٹی نے واک آؤٹ کر دیا، اس کے بعد تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی واک آؤٹ کر گئیں۔ اس دوران جمشید دستی نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ گنتی کے بعد کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس آج صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پٹرول پر 5 اور ڈیزل پر 8 فیصد سیلز ٹیکس کم کرنیکا مطالبہ کر دیا۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے عوام پر پٹرول بم گرا دیا ہے، 31 فیصد سیلز ٹیکس لیا جا رہا ہے، ڈیزل 44 روپے فی لیٹر پڑتا ہے مگر 84 روپے میں بیچا جا رہا ہے۔ بھارت میں ڈیزل کی قیمت پاکستان کی نسبت کم ہے، اجلاس بعد میں چلائیں پہلے مجھے جواب چاہیے، جب تک جواب نہیں ملے گا کھڑا رہوںگا، پارلیمانی سیکریٹری خزانہ رانا افضال نے بتایا کہ ہمسایہ ممالک کی نسبت پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں۔ اپوزیشن لیڈر نے جواب مسترد کرتے ہوئے کہا حکومت نے جولائی سے مارچ تک 879 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا اور عوام کا خون چوسا ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا حکومت نے پیپلزپارٹی کے دور میں لگائے گئے ٹیکسوں کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لگایا، خطے میں سب سے کم قیمتیں پاکستان میں ہیں جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر نے لمبی تقریر کی لیکن پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب فاروق ستار نے کہا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مسترد اور مذمت کرتے ہیں، قبل ازیں بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا کہ حالیہ اجلاس 14 نومبر تک جاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔