نیو دمبالو تا خنجراب پاس

سردار قریشی  ہفتہ 4 نومبر 2017

میری بیٹی، حافظہ فاطمہ سردار، جو اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہے اور جو انشاء اللہ رواں سال کے آخر تک کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف فارمیسی بن کر نکلے گی، ابھی کچھ ہی دن پہلے اساتذہ کی زیر نگرانی اپنے ڈپارٹمنٹ کے دیگر طلبا وطالبات کے پورے گروپ کے ساتھ 12 روزہ پاکستان ٹور سے لوٹی ہے، جس میں انھیں خاص طور پر شمالی علاقہ جات کے خوبصورت ترین اور پْر فضا مقامات کی سیرکرائی گئی ۔

انھیں شوگران، سری پائے، ناران،کاغان، چلاس، سوست، بابوسر، ہنزہ اور خنجراب پاس لے جایا گیا جہاں انھوں نے کے ٹو اور نانگا پربت کی چوٹیوں کا ہی نہیں،افسانوی شہرت کی حامل جھیل سیف الملوک اور آنسو جھیل کا بھی نظارہ کیا۔ اْس کے بقول دنیا میں ان سے زیادہ حسین نظارے شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملیں اور وہاں جاکر ہی پتہ چلتا ہے کہ قدرت نے ہمیں کتنے خوبصورت علاقوں اور ملک سے نوازا ہے۔ یہ لوگ آیندہ برس جنت نظیر وادی کشمیر کے دیگر علاقوں اور گلیات کی سیرکو جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ فاطمہ کے اسمارٹ فون میں شمالی علاقہ جات کے جو خوبصورت مناظر تصویروں اور ویڈیوزکی صورت میں محفوظ ہیں، وہ واقعی قابل دید ہیں اور انھیں بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔

وہ اپنے دورے کی یادگارکے طور پرکافرستان کی لڑکیوں کے زیر استعمال کچھ زیورات اور پرس وغیرہ بھی لائی ہے جو بڑے شوق سے اپنی بہنوں، بھابیوں، دوستوں اور ملنے والیوں کو پہن کر دکھاتی ہے۔ گلگت بلتستان سے ملحق یہ علاقے در اصل کشمیر ہی کا حصہ ہیں اور میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ڈوگرہ مہاراجہ نے چند ٹکوں کے عوض اپنی جو ریاست انگریزوں کے ہاتھ فروخت کی تھی اس میں یہ تمام علاقے ہی نہیں، پورا آزاد اور مقبوضہ جموں وکشمیر بھی شامل تھا۔ اس کی سرحد عوامی جمہوریہ چین سے ملتی ہے، اسی لیے خنجراب پاس اپنے محل و وقوع کے لحاظ سے چائنا گیٹ بھی کہلاتا ہے۔

مشہور ایرانی شاعر، حافظ شیرازی نے اس کے حْسن وجمال ہی سے متاثر ہوکرکہا تھا کہ اگر زمین پرکوئی جنت ہوسکتی ہے تو وہ یہی وادی کشمیر ہے۔ شمالی علاقہ جات کی سیر کو جانے والے راولپنڈی سے عموماً ان دو روٹس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں: کاغان روٹ پر حسن ابدال، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالا کوٹ،کیوائی،کاغان، ناران، ہیسل، بابوسر پاس، چلاس، گلگت، خنجراب، سکردو، بشام، داسو، رائے کوٹ، جگلوٹ، شندور،کریم آباد، سست، دیر، چترال،کیلاش، شندور پاس، چکدرہ، تیمرگرہ، لواری پاس، دروش، بونی، مستوج، بمبوریت کیلاش / کافرستان اورگرم چشمہ آتے ہیں جب کہ کالام روٹ پر مشہور مقامات میں نوشہرہ، مردان، تخت بھائی، درگئی، چکدرہ، مینگورہ، بحرین، کالام اور مہوڈنڈ جھیل قابل ذکر ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی آبشار بھی بلتستان کے علاقے منٹوکھا میں ہے۔ سلک روٹ، قراقرم ہائی وے، مجوزہ بھاشا ڈیم، نانگا پربت اور کے ٹوکی چوٹیاں بھی شمالی علاقہ جات میں ہیں جو ایک طرف چین تو دوسری جانب افغانستان کی سرحدوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ میرے ایک دوست نے کوئی تیس برس قبل ان علاقوں کا دورہ کیا تھا جب سیاحوں کو دستیاب موجودہ سہولتوں میں سے بہت سی عنقا تھیں اور دشوارگذار راستوں پر میلوں پیدل چلنا پڑتا تھا۔اس کے باوجود وہ اکثر وہاں کے دلفریب مناظر اور حسن وجمال کے قصے سنایا کرتا تھا، برسوں بعد بھی وہ ان کے سحر میں ایسا گرفتار تھا کہ اس کے لیے اس سے نکلنا محال تھا۔ قدرتی مناظر کا حسن، دیکھنے والوں پر کچھ ایسا جادوکردیتا ہے جس کا توڑ شاید ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان مناظر کی دید ایسا نشہ ہے جو اترتے اترتے ہی اترتا ہے۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ حسین یادوں کو کبھی ذہن سے محو نہیں ہونے دینا چاہیے اور وہ نظارے ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہنے چاہیئیں جو ان کی ٹھنڈک کا باعث ہوتے اور روح کو سرور بخشتے ہیں۔

ہم تو زندگی کی چوہتر بہاریں دیکھ چکنے کے باوجود ابھی تک زمانہ طالب علمی میں اپنے قصبے، ٹنڈو غلام علی سے صرف چار میل کی مسافت پر واقع نیو دمبالو میں منائی ہوئی پکنک یا سیر و تفریح کی یادیں دل میں بسائے بیٹھے ہیں، جس کا موقعہ کہیں سال دو سال میں مشکل سے آتا تھا۔ بارشوں اور آموں کا موسم تقریباً ہر جگہ ایک ہی وقت آتا ہے، ہمارے ہاں بھی ایسا ہی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ کی جاگیر کا صدر مقام ہونے کے باوجود وہاں ہائی اسکول نہیں بن سکا تھا جب کہ نواحی گاؤں حاجی غلام علی اور ستر چک میں ہاسٹل کی سہولت کے ساتھ ہائی اسکول بہت پہلے سے موجود تھے۔

ہمارے تحصیل پیڈ کوارٹر ماتلی میں ہائی اسکول تو تھا ہی، کالج بھی کھل چکا تھا جب کہ ٹنڈو محمد خان کے قریب سعید پورٹکر نام کے گاؤں میں بھی ہاسٹل کے ساتھ ہائی اسکول قائم تھا۔ اب کیا صورتحال ہے، میں نہیں جانتا لیکن وہاں کے زمیندار قبول شاہ کے والد اس زمانے میں ہاسٹل میں مقیم تمام طالبعلموں کو اپنی طرف سے تینوں وقت کا کھانا،کتابیں اور یونیفارم بھی دیتے تھے، یہی وطیرہ حاجی غلام علی اور ستر چک کے چوہدری کا بھی تھا جو کہنے کو پنجابی سیٹلر (آبادکار) اور ہمارے میروں کے مقابلے میں بہت چھوٹے زمیندار تھے لیکن وہ دل کے غنی تھے اور اپنے غریب کسانوں کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح تعلیم کے زیور سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس میروں کی سوچ یہ تھی کہ اگر ہاریوں اور نوکروں کے بچے بھی پڑھ لکھ گئے تو انھیں سلام کون کرے گا۔

خیر، تو میں آپ کو نیو دمبالو پر منائی جانے والی اپنی ایکسکرشن کا بتانے لگا تھا جسے ہم لوگ اتنا انجوائے کرتے تھے جتنا فاطمہ اور اس کی دوستوں نے شمالی عاقہ جات کی سیر و تفریح کو بھی نہیں کیا ہوگا۔ یہ پچاس کے عشرے کے آخری برسوں کا زمانہ رہا ہوگا جب نیو دمبالو پر آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا، روہڑی کینال سے نکلنے والی دو بڑی نہریں نئے اور پرانے دمبالے کے نام سے یہاں سے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے گذرتی تھیں۔ نیو دمبالوکے مقام پر اس بڑی نہر میں سے کئی ایک چھوٹی چھوٹی نہریں (شاخیں) نکلتی تھیں جب کہ مین بڑی نہر پر بڑے بڑے فولادی دروازوں والا ریگولیٹر نصب تھا۔

جس میں سے پانی اتنی قوت سے گذرتا تھا کہ ایک میل دور تک اس کا شور سنائی دیتا تھا اور ریگولیٹر پر بنے پْل پر سے فولادی دروازوں سے ٹکراتی اور مچلتی بپھری ہوئی چھولیوں کو دیکھ کر ڈر لگتا تھا، یہاں پانی کی گہرائی بھی بہت زیادہ تھی۔ ایکسکرشن کا پروگرام بننے کے لیے ضروری تھا کہ آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوں اور موسم ابر آلود ہو، نصف گھنٹے کے لیے پڑھائی معطل کرکے طلباء کو گھر سے چار چار آنے لاکر جمع کرانے کا کہا جاتا تھا جن سے چاول، گوشت، گھی، مصالحہ جات، جلانے کی لکڑیاں اور آم خریدے جاتے تھے۔

سامان کی خریداری ہاسٹل کے باورچی یارْو کی ذمے داری ہوتی جو دیگوں اور برتنوں سمیت سب چیزیں کرائے کی گدھا گاڑی پر لدوا کر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں نہ صرف پہنچا بلکہ پکانا بھی شروع کرچکا ہوتا تھا۔ طلباء کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کرکے ایکسکرشن کے قواعد وضوابط یاد دلائے جاتے تھے، جن کی خلاف ورزی پر سخت سزا ملتی تھی۔ بڑے لڑکوں کو تو جنھیں تیرنا بھی آتا تھا، اساتذہ کے ساتھ بڑی نہر میں نہانے کی اجازت ہوتی تھی جب کہ کمسن لڑکے، جنھیں تیرنا بھی نہیں آتا تھا، صرف ڈھائی تین فٹ گہرے پانی والی شاخوں میں نہا سکتے تھے۔

دونوں کیٹیگریز کے لڑکوں کی نگرانی کے لیے اساتذہ کی ڈیوٹی لگتی، نہانے کے دوران چوسنے کے لیے دو دو آم ملتے، ایک دو گھنٹے نہانے اور خوب اچھل کود کرنے کے بعد جب نہر اور شاخوں سے نکلتے تو یارْو کا تیار کیا ہوا گرم گرم پلاؤ کھانے کو ملتا، سب لڑکے اور اساتذہ ملکر ساتھ کھاتے، بس مزہ آ جاتا۔ میں نے فاطمہ کو بتایا کہ اس کو جتنی خوشی پاکستان ٹوئر پر جاکر ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ خوشی ہمیں نیو دمبالو پر پکنک منا کر ہوتی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حوالے سے لڑکپن کی یادیں بڑھاپے میں بھی خوشبو کی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔