چیف سلیکٹر کئی کشتیوں کے سوار

سلیم خالق  ہفتہ 4 نومبر 2017
سابق کرکٹرزکا یہی حال ہے جنہیں بورڈ میں مختلف ذمہ داریاں ملی ہوئی ہیں لیکن اسکےباوجود کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے

سابق کرکٹرزکا یہی حال ہے جنہیں بورڈ میں مختلف ذمہ داریاں ملی ہوئی ہیں لیکن اسکےباوجود کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے

انسان کے پاس جتنا بھی پیسہ آ جائے، وہ جس پوزیشن پر بھی پہنچ جائے، مگر خواہشات کا لامحدود سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا،میں یہ بھی کر لوں، وہ بھی کر لوں، یہ سوچ ہر جگہ ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور کرتی رہتی ہے، اسی لیے اپنے اصل کام پر فوکس نہیں کر پاتے اور پھر آخر میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ہمارے سابق کرکٹرز کا بھی یہی حال ہے، انھیں بورڈ میں بھی مختلف ذمہ داریاں ملی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، جیسے چیف سلیکٹر انضمام الحق کی مثال سامنے ہے، وہ خوش قسمت ہیں کہ 10 سال قبل انھیں ریٹائر ہونے پر بھی ایک کروڑ روپے نقد بورڈ نے دیے تھے، پھر وہ باغی انڈین کرکٹ لیگ سے منسلک ہوئے جو میچ فکسنگ تنازعات کی وجہ سے چل نہیں سکی،انضمام کو 14 لاکھ روپے ماہانہ پر قومی کرکٹ چیف سلیکٹر کی ملازمت مل گئی، غیر ملکی دورے الگ ہیں، چیمپئنز ٹرافی کی فتح پر گھر بیٹھے ایک کروڑ روپے کا انعام بھی ملا، خوش قسمتی سے ٹیم بھی ان دنوں اچھا پرفارم کر رہی ہے، البتہ ٹیسٹ میں مسائل کا سامنا ہے۔

ایسے میں بہتر یہی ہوتا کہ وہ بہتری کیلیے اقدامات کرتے مگر انھوں نے اپنا دماغ ٹی ٹین لیگ پر لگا دیا اور اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بھی خرید لی، جب یہ خبر میں نے دی تو بورڈ پہلے تردید کی کوشش کرتے رہا اسے آفیشل پریس ریلیز دکھایا تو یہ باتیں ہوئیں بھائی کی ٹیم ہے، نجم سیٹھی تک نے کہا کہ انضمام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، مگر اب اطلاعات کے مطابق انضمام نے بورڈ سے ٹیم خریدنے کی اجازت مانگی جو انھیں مل بھی گئی، بھائی آپ کا تو کوئی تعلق ہی نہیں تھا پھر اجازت کیوں مانگی، اسی طرح جب انضمام ٹی ٹین سے منسلک ہی نہیں تو اجازت کیوں دی، اس سے اندازہ لگا لیں بورڈ کے معاملات کیسے چل رہے ہیں، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جن دنوں چیف سلیکٹر ٹی ٹین لیگ سے منسلک رہیں گے اس دوران تنخواہ نہیں ملے گی، اس پر سوائے ہنسنے کے کیا کر سکتے ہیں، جو انسان کروڑوں روپے کی ایک ٹیم خرید سکتا ہے اسے چند لاکھ روپے گنوانے سے کیا نقصان ہوگا، البتہ قومی کرکٹ کو اس کا نقصان ہونا ہے، انضمام بطور چیف سلیکٹر اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے کھلاڑیوں کو اس ٹیم میںشامل ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

جس طرٖح فواد عالم اور دیگر باصلاحیت کرکٹرز کو گھر بٹھا کر وہ اپنے بھتیجے کو ٹیم میں لائے اس سے صاف ظاہر ہے انھیں کسی بات کی کوئی پروا بھی نہیں ہے، افسوس پی سی بی پر ہے جو خود اپنی پالیسی سے انحراف کر رہا ہے، انضمام ایک پی ایل ایل فرنچائز سے بھی بطور مینٹور منسلک ہو رہے ہیں، چلیں یہ بات تو سمجھ آتی ہے کیونکہ مکی آرتھر اور مدثر نذر بھی لیگ میں کام کر چکے اور یہ اپنا ہی ایونٹ ہے، مگر چیف سلیکٹر خود کو اتنی ساری جگہ انوالو کریں گے تو ٹیم بنانے پر کب توجہ دیں گے، ان کے دیرینہ دوست اور اکیڈمی کوچ مشتاق احمد بھی ٹی ٹین لیگ میں کوچنگ کرنے جائیں گے،وسیم اکرم، وقار یونس، معین خان بھی موجود ہوں گے، یوں نائنٹیز کی مشہور پاکستانی ٹیم کے تمام بڑے نام لیگ میں مصروف ہوںگے، ملکی تاریخ میں بڑے بڑے کرکٹرز گذرے مگر حیران کن طور پر چند مخصوص چہرے ہی ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں،اس کی واضح وجہ لابنگ ہی لگتی ہے۔

عبدالقادر، محسن خان، عامر سہیل، شعیب محمد جیسے لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا مگر بعض سابق کھلاڑی ہر جگہ نظر آتے ہیں، جیسے ہارون رشید کا بطور کرکٹر کیا مقام تھا سب جانتے ہیں مگر کوئی ایسی پی سی بی کی پوسٹ نہیں جس پر وہ نہ آئے ہوں، اسی طرح محمد الیاس، باسط علی وغیرہ بے شمار ایسے نام ہیں، ایسا لگتا ہے کہ میوزیکل چیئرکے گرد مخصوص چہرے جمع ہیں جو باری باری کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں،اس وقت چونکہ ٹیم جیت رہی ہے اس لیے کئی معاملات چھپ گئے ہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دو ٹیسٹ میں اسی کمزور سری لنکن ٹیم نے ہرایا تھا، ٹی ٹوئنٹی میں بھی بعض اوقات ٹیم مشکل میں دکھائی دی، اس لیے جیت کے پردے کی اوٹ میں خامیوں کو نہ چھپائیں، بورڈ کو ایک واضح قانون بنانا ہو گا کہ اس کے ملازمین کوئی اور کام نہیں کر سکتے، چند برس قبل تک تو کمنٹری تک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی مگر نجم سیٹھی کے دور میں کھلی آزادی ہے۔

منظور نظر افراد پر اب پر عنایتیں جاری ہیں، ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے لوگوں کو واپس نہیں بھیجا جا رہا، ویمنز ٹیم کا تیا پانچا کرنے والی عائشہ اشعر کو منیجر کی پوسٹ سے ہٹا کر ویمنز ونگ میں قائم مقام جی ایم تعینات کر دیا گیا،ایزد سید کو ڈائریکٹر گیم ڈیولپمنٹ کے عہدے سے ہٹا کر ایڈوائزر بنا دیا، یہ کس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے، افسوس اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اسی لیے من مانیوں کا سلسلہ جاری ہے، بورڈ میں اندرون خانہ کافی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، سابق چیئرمین ذکا اشرف کے قریبی ساتھی بریگیڈیئر (ر) ساجد کو شہریارخان کے دور میں بھی ڈائریکٹر ایچ آر رکھا گیا مگر اب ان کا معاہدہ ختم ہو چکا، مارکیٹنگ اور میڈیا میں خدمات انجام دینے والے عماد حمید انتہائی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اب چیئرمین نجم سیٹھی کے غیر اعلانیہ پی ایس بھی بن چکے ہیں، چونکہ گورننگ بورڈ غیرفعال ہوتا ہے اس لیے چیئرمین کو من مانیوں کا موقع ملتا ہے، نجم سیٹھی کی بھی کوشش ہے کہ وہ ہر شعبے پر اپنی گرفت مضبوط کر لیں اور میڈیا، مارکیٹنگ وغیرہ کی حد تک وہ کامیاب بھی ہیں۔

البتہ وقت کا کچھ پتا نہیں چلتا ، آئندہ سال ملک میں عام انتخابات ہونے ہیں، سب جانتے ہیں کہ یہاں پی سی بی کا سربراہ سیاسی وابستگی پر آتا ہے، نجم سیٹھی کو بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف سے قربت پر نوازا گیا، نئی حکومت دیکھیں کیا کرے گی، شاید یہ حقیقت جانتے ہوئے ہی وہ تیزی سے فیصلے کر رہے ہیں تاکہ کریڈٹ پر بڑے ’’ کارنامے‘‘ آ سکیں، البتہ بھارت سے قانونی جنگ کا معاملہ چھپتا دکھائی دے رہا ہے، اس کیلیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے مگر اب خاموشی ہے، سری لنکن ٹیم میں اسٹار کھلاڑی نہ سہی مگر اس کا آنا بڑی بات تھا، اب ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بلانے کی تیاری ہے، یہ اقدامات تو اچھے نظر آتے ہیں مگر اسٹار پلیئرز کی دستبرداری سے اچھا تاثر نہیں جائے گا، اسی طرح اخراجات کرنے ہوئے بھی سوچنا چاہیے،چیئرمین کو کمزور مینجمنٹ بہتر بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی، ان کے جو ساتھی اب تک ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی کا شیڈول ترتیب نہ دے سکے وہ دیگر بڑے معاملات کیسے سنبھالیں گے، سیٹھی صاحب جانے کب یہ بات سمجھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔