باعزت بے عزتی!

شیریں حیدر  اتوار 5 نومبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’وے مصدق تجھے حیا بھی نہ آئی کہ تو نے اپنے، اپنے ماں باپ اور اپنے آباو اجدادکے نام کو ڈبو دیا ہے… ‘‘ چاچا صادق کی کڑک دار آواز آئی۔ ان کا گھر ہمار ے گاؤں کے پڑوس والا گھر تھا، دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھی۔ بچپن سے لے کر آج تک گاؤں میں ہمیشہ شادی غمی کے موقع پر ہی ہمارا جانا ہوتا ہے۔ چاچا صادق گاؤں میں میراثیوں کے گھر کا سربراہ تھا، ان کا گھرانہ خوشی کے موقع پرہر گھر میں رونق لگا دیتا تھا۔

ان کے گھر کی عورتیں جب شام کو شادی والے گھر میں ڈھولک کی تال پر اپنی سریلی آواز کا جادو جگاتیں تو سننے والے لہک اٹھتے… فصل کٹتی تو ان کے گھروں کے افراد بھی فصل کی کٹائی میں باقی کمیوں کی طرح شامل ہوتے، فصل کاٹنے سے لے کر کام کرنے والوں کی تفریح کے لیے ڈھول بجانے تک۔

اس کے عوض انھیں زمینداروں کے گھروں سے سال بھر کے لیے ان کے استعمال کی گندم اور دیگر اجناس مل جاتیں۔ کٹائی کے دوران بھی جب کوئی ایک لے اٹھاتا تو فصل کاٹنے والوں کے لہو گرم ہو جاتے اور کام کی رفتار بڑھ جاتی۔ شدید گرمی میں بھی سکون محسوس ہوتا۔ہمارے گھروںمیں بے شک وہ ہمارے برابر بیٹھنے کی جرات نہ کرتے اور کرسی خالی بھی ہوتی تو پیڑھی کی عدم موجودگی میں زمین پر پیروں کے بل بیٹھ جاتے تھے مگر ہمیں اجازت نہ تھی کہ ہم انھیں ان کے نام سے پکاریں یا حقارت سے بات کریں اور نہ ہی ہم نے اپنے سے کسی بڑے کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔

ہم ان سب کو چاچا، ماما، ماسی، بی بی کہہ کر کر بلاتے، زیادہ عمر والوں کو بابا جی اور بے بے جی۔ ہمیں اس عمر میں کہاں اخوت اور مساوات کا علم تھا، بس یہ جانتے تھے کہ وہ ہم سے کم درجے کے شہری تھے۔ اس میں زیادہ عمل سوچ کا نہیں اور نہ ہی ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے مگر معاشرتی نظام جس پر کئی سو سال تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے سے ان کی تہذیب اور نظام کے اثرات ہم پر بھی آ گئے اور ہم نے اونچ نیچ کے ایسے معیار وضع کر لیے۔

شعور آیا تو دبی دبی آواز میں، بزرگوں کی دل آزاری نہ کرنے کے خیال سے انھیں سمجھاتے کہ وہ بھی انسان ہیں اس لیے انھیں کوئی کرسی یا چارپائی خالی ہو تو اس پر بیٹھ لینے دیا کریں۔ ہم آرام کریں اور وہ دن بھر ہمیں کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پنکھے جھلیں، ہم نے نہانا ہو تو ہاتھ کے نلکے سے وہ پانی بھر کر ہمارے غسل خانوںمیں رکھیں، وہ کوئی ہمارے غلام تو نہیں۔ دنیا کا دستور ایساہے کہ نظام میں تبدیلیاں دبی دبی آوازوں سے نہیں آتیں۔ حقیقی تبدیلی اس وقت آتی ہے جب کسی غلط نظام کے متاثرین یا ظلم کی چکی میں پستے ہوئے لوگ یہ احساس کریں کہ ان کی حالت کوئی اور بدلنے والا نہیں بلکہ انھیں خود ہی کچھ کرنا ہو گا۔

ہم نے صادق چاچا کو شرمندہ اور احساس ذلت سے اٹا ہوا، اپنے بزرگوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے، روتے ہوئے اپنی داڑھی بھگوتے ہوئے اس وقت بھی دیکھا تھا جب ان کے بیٹے مصدق نے گاؤں کے مڈل اسکول سے پڑھ کر لالہ موسی جا کر آٹھویں کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، بلکہ دھمکی دی کہ اگر اسے اجازت نہ ملی تو وہ گھر سے بھاگ جائے گا۔ہمارے بزرگوں کو تبدیلی کی آہٹ محسوس ہو رہی تھی، جس کا اس وقت نکتہء آغاز تھا اور اب وہ تبدیلی ہمارے دیہات میں پوری طرح وارد ہو چکی ہے۔

اب ہمارے وہ کمین ہم سے مالی حالات میں کم از کم بہتر ہیں، شادیوں پر کوئی دیگیں پکانے والا ملتا ہے نہ غمی پر مہمانوں کو پانی پلانے والا۔ غرض حالات اب ویسے نہیں رہے۔ اس روز چاچا کی کڑک دار آواز اس لیے آ رہی تھی کہ ان کا بیٹا، لالہ موسی کے بعد لاہور پڑھنے کے لیے گیا تھا، وہاں سے پڑھائی کے دوران ہی جانے کیسے وہ کسی طوائف تک پہنچا، دونوں میں پسندیدگی پیدا ہو گئی اور نکاح پر یہ قصہ منتج ہوا۔ وہاں کہانی ختم نہ ہوئی بلکہ جب وہ اس ’’تحفے‘‘کو اپنے گھر پر لے کر آیا تو چاچا بپھر گیا۔’’میرے نام کی لاج؟‘‘ مصدق نے حیرت سے پوچھا تھا، ’’میں سمجھا نہیں ابا؟‘‘

’’تیرا باپ صادق تھا تو اس نے تیرا نام مصدق رکھا کہ تو اپنے باپ جیسا سیدھا سادہ اور شریف ہو گا اور باپ کی شرافت کی اور اپنے خاندان کی میراث کی تصدیق کرے گا مگر تو نے میراثیوں کو چھوڑ کر کنجروں کے خاندان میں بیاہ کر کے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ تو اندر سے کنجر ہی ہے!!‘‘ چاچا کے منہ سے یقیناً کف چھوٹ رہی ہو گی کیونکہ ہم صرف سامعین تھے ناظرین نہیں۔

چند دن صبح شام یہ تماشہ چلتا رہا، چاچے کا بھی عہد تھا کہ اس نے یوں اس کے بیٹے کے ساتھ منہ اٹھا کر چلی آنیوالی کو بہو تسلیم نہیں کرنا تھا۔ وہ بھی ایک طوائف تھی اور بیاہ کر کے اس لیے آئی تھی کہ اسے کسی گھر میں بہو کے اسٹیٹس کے ساتھ عزت ملے گی۔ کوٹھے پر بھی اسے بائی کہہ کر پکارا جاتا تھا، یہاں کنجری کے لقب کا ہتھوڑا دن رات سر پر چند دن پڑا تو مصدق کے ساتھ اس کا عشق ہوا ہو گیا۔

مصدق کے ساتھ اس نے اس کے باپ کے سامنے بات کی کہ وہ ایک ’’عزت دار طوائف‘‘ ہے اور یہاں غلط القاب سن سن کر اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے… چاچا نے اسے گھور کر دیکھا، ’’عزت کیا ہوتی ہے، پتہ  ہے تجھے؟ ایسے بے عزتوں کو بھی عزت کا لفظ بولنا آتا ہے!‘‘

’’ عزت دار طوائف‘‘ نے اور بھی بے عزتی محسوس کی اور چاچا سے معافی مانگی اور کہاکہ اس نے ان کے بیٹے سے نکاح کیا، ا س کے اس دعوے پر کہ وہ اپنے ماں باپ کو منا لے گا اور اسے اس کے گھر میں عزت ملے گی، مگر ایسا ہوا نہیں۔’’میرے کوٹھے پر جو بھی لوگ آتے ہیں وہ لوگ میری پذیرائی کرتے ہیں، میرے قدموںمیں گر گر جاتے ہیں، میرے اوپر نوٹ نچھاور کرتے ہیں، میں اسی کو عزت سمجھتی ہوں۔ کم از کم آپ کی طرح دن رات کوئی بول کر کنجری نہیں کہتا۔ اس لیے آپ اپنے بیٹے سے کہیں کہ مجھے طلاق دے دے اور اپنے ماں باپ کی خوشی کی خاطر ان کی پسند کی شادی کر لے۔ میرے دل میں آپ کا احترا م ہے، میں جب بھی اس طرف آئی، آپ سے ملتی رہوں گی۔ میں نے تو کوئی رشتہ دیکھا ہی نہ تھا… چند ماہ سے آپ کو ابا اور انھیں اماں کہہ کر دل کو جو خوشی ملتی تھی آپ مجھے اس خوشی سے محروم نہ کریں۔ آپ کو آپ کا بیٹا لوٹا رہی ہوں، اس کے بدلے آپ مجھ سے خود کو ابا اور اماں کہلوانے کا حق نہ چھینیں!!‘‘

چاچا کا سارا خاندان بائی کے اس اخلاق اور سوچ سے متاثر ہوا، اسے خوشی خوشی طلاق کے ساتھ کئی تحائف اور سوغاتیں دی گئیں اور ایک بیٹی کی طرح گھر سے رخصت کیا گیا۔ گاؤں کا ایک اور ذمے دار شخص اس کے ساتھ بھجوایا گیا کہ اسے ’’عزت‘‘ کے ساتھ واپس چھوڑ کر آئے… کیونکہ اب مصدق اس کا نا محرم تھایا شاید چا چے کو خوف تھا کہ مصد ق راستے میں پھر نہ پھسل جائے۔ تحفے تحائف لے کر، سب لوگوں سے گلے مل مل کر روتی ہوئی وہ گھر سے نکلی تو بے اختیارگھر کے سارے افراد اسے الوداع کہنے گاؤں کے اڈے تک چلے گئے۔سالوں بیت گئے… مصدق کا بیاہ اس کے والدین نے اپنی مرضی سے کیا اور اس کے بچوں کے بھی ناز نخرے دیکھنے لگے مگر اس کی پہلی بیوی سے ان کا تعلق ختم نہ ہوا، ان کے ہاں وہ بیٹی کی طرح آتی رہی، ان کے ہاں سے کوئی لاہور جاتا تو اسے ضرور ملتا۔

بائی انھیں بہو کے روپ میں پسند نہ آئی تھی مگر اس کے بغیر ان کا گزارا بھی نہ ہوتا تھا۔ چند دنوں میں وہ اداس ہوتے اور اسے ملنے کو چلے جاتے۔ تحفوں کے تبادلے ہوتے، اسے مل کر لوٹنے والے آ کربتاتے کہ بائی نے انھیں فلاں تحفہ دیا ہے اور فلاں جگہ کی سیر کروائی ہے۔ گاؤں آتی تو اسے پورا پروٹوکول ملتا… مصدق کے بچے اسے پھوپھو کہتے اور گاؤں کے لوگ بھی اسے وہ عزت دیتے جس کے لیے وہ اپنا کوٹھا چھوڑ کر آئی تھی اور نہ پا سکی تھی۔ بے عزت ہو کر وہ گاؤں والوں کی نظر میں زیادہ معزز ہو گئی تھی۔جانے کیوں اپنے گاؤں کی بچپن کی سنی ہوئی یہ کہانی یاد آگئی اور آپ سے شئیر کر لی… براہ مہربانی اس کہانی کو ملک کے سیاسی حالات کے تناظر میں نہ دیکھیں۔ ناموں،کرداروں، حالات، جگہوں اور واقعات میں کسی بھی طرح کی مماثلت قطعی اتفاقاً ہے، اسے دل پر نہ لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔