ایبورجنی اور کینگرو

حمید احمد سیٹھی  اتوار 5 نومبر 2017
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

دوست احباب نے خوب ڈرا دیا تھا کہ آسٹریلیا تو دنیا کے دوسرے کنارے پر ہے، طویل ہوائی سفر ہے لیکن تھائی ایئر کی پرواز نے پتہ ہی نہ چلنے دیا اور ہم بلا تھکن سڈنی کے ہوائی اڈے پر جا اترے۔ موسم نہایت خوشگوار تھا۔ اگلی صبح ڈائننگ ٹیبل کے پیچھے ایک چھوٹا سا بورڈ دیکھا جس پر خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں تحریر تھا Waiting for the Groom اور یہ پیغام یقینا دولہا میاں عثماں خاں کے لیے تھا جس کی شادی میں شرکت کے لیے ہم نے ڈاکٹر عمر شہاب کے گھر میں ڈیرہ ڈالا تھا۔

اگلی شام عمر شہاب ہمیں لے کر ڈرائیو پر نکلے اور سڈنی کی صاف شفاف سڑکوں پرخاموش ٹریفک کو رواں دواں دیکھا تو استنبول یاد آگئی کہ ہر دو کی Topography میں حد درجہ مماثلت تھی۔

1606ء سے 1770ء تک کے عرصہ میں پچاس سے زیادہ یورپین بحری جہاز آسٹریلیا کے جزیروں میں آتے جاتے رہے۔ تب یہاں صرف مقامی تورس اور ایبورجینرز آباد تھے۔ 1770ء میں برطانوی کیپٹن کک آسٹریلیا کے مشرقی شاحل پر اترا، وہاں اس نے جھنڈا لہرایا اور اسے نیو ساؤتھ ویلز کا نام دیا۔ 1788ء میں کیپٹن فلپ II بحری جہازوں کا بیڑہ لے کر سزا یافتہ مجرموں سمیت برطانیہ سے آیا تاکہ نودریافت علاقے کو برطانوی کالونی بنایا جائے۔یورپین فورسز کے آسٹریلیا آنے سے پہلے انڈونیشین ماہی گیر اور سیاح آسٹریلین سمندروں کا چکر لگاتے تھے لیکن ان کا ارادہ قبضہ کرنے کا تھا اور نہ ہی ان کے پاس برطانیہ جیسے وسائل تھے۔

سمندر کنارے ہاربر برج اور اوپرا ہاؤس جہاز کی سیر کے لیے جانا ہوا تو بدآواز بھونڈی موسیقی سنی۔ معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے Aborignien اپنے بنائے ہوئے ساز بجا کر سیاحوں کا دل بہلا کر پیسے مانگ رہے ہیں۔ وہاں پہنچے تو دیکھا ایک نوجوان چھ فٹ لمبا بھونپو اور دوسرا ڈفلی بجا رہا ہے۔ ہر دو آلات موسیقی کی آواز ایسی تھی کہ ان سے چھین کر سمندر میں پھینک دینے کا جی چاہا لیکن ان کے برتن میں دو ڈالر کے سکے ڈال کر ان سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈا۔ ایک بدصورت سیاہ فام نے نیکر دوسرے نے پتلون پہنی ہوئی تھی۔

ان سے باری باری پوچھا کہ اب آپ کو تعلیم یافتہ باہنر گورے غاصب حکمرانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دو سو سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے آپ لوگ تعلیم، ہنر اور لباس پر کیوں توجہ نہیں دیتے اور کیوں جنگلیوں جیسی زندگی گزارنے پر بضد ہو جب کہ حکمرانوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ وہ Aborignier اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے بلکہ وہ اس پر بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ میں نے ان کے برتن میں مزید دو سکے ڈال کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ گورے Convicts جنھیں برطانوی غاصب جبری ملازمت کے لیے آسٹریلیا کی نو آبادی پر لائے تھے۔ ان دو سو سال کے عرصے میں گورے صاحب بن چکے ہیں اور آسٹریلیا کی ترقی کافی حد تک ان کی مرہون منت ہے۔

ہم لوگ مہمان اور دوستوں سے محبت کا اظہار انھیں کھانے کی دعوت دے کر کرتے ہیں۔ نو بیاہتا جوڑے کو تو ڈنر پر بلانا فرض سمجھتے ہیں اور ہمارا تو سڈنی میں قیام ہی شادی والے گھر میں تھا لہٰذا شادی کی تقریبات کے فوراً بعد پاکستانی دوستوں کی طرف سے دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو ہماری پاکستان واپسی سے ایک دن پہلے تک جاری رہا۔ دعوت ولیمہ کے بعد ہمارے پاس پاکستان واپسی تک چھ دن تھے۔ پہلی دعوت محمد رشید احمد کے گھر تھی۔ موصوف آسٹریلیا جانے سے پہلے لاہور میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ تھے۔

دوسرا کھانا اظہر ریحان خاں نے تھائی ریسٹورنٹ KINN میں دیا۔ تھائی زبان میں KINN کا مطلب ہے EAT یعنی کھاؤ اور ہم نے نیشنل کالج آف آرٹس NCA کے گریجویٹ کی دعوت پر خوب کھایا۔ تیسرا کھانا سڈنی کے معروف پراپرٹی ڈویلپر عزیز اللہ چوہدری نے ہمالیہ ریسٹورنٹ میں دیا۔ چوتھی دعوت واپڈا کے سابق چیف انجینئر خالد سیف اللہ کی طرف سے تھی۔ پانچویں دن ہم سول ایوی ایشن کے سابق افسر شاہد خاں کے مکان پر پہنچے جب کہ واپسی سے پہلی رات وحید احمد کے مکان پر باربی کیو ڈنر کا اہتمام تھا۔

کینگرو اور قسم قسم کے طوطے دیکھے، قدیم باشندوں سے Opera House کے سامنے سمندر کنارے ملاقات اور بات چیت خاصی مایوس کن رہی تھی البتہ بے شمار گھروں کی چھتوں پر سولر پینل باعث حیرت رہے کیونکہ سڈنی میں بجلی کا تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن دلچسپ انکشاف تھا کہ لوگوں نے گھروں کے درختوں پر شہد کی مکھیاں پال رکھی ہیں اور فالتو شہید کے چھتے تحفے میں دے دیتے یا فروخت کردیتے ہیں۔ ہمیں خالص شہد کا چھتہ حاصل کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔

سڈنی کی دو سیرگاہوں Janolan اور Katoomba میں سے دوسری جس کو Blue Montains کہتے ہیں، دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ سیرگاہ جو ڈاکٹر عمر شہاب کے گھر سے پونے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے، پہاڑوں کے پار تھی، پہاڑ اور جنگلات کے درمیان بل کھاتی سڑک ہمیں Katoomba لے گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ وادی کوہ مری ہلز سے دس گنا زیادہ خوبصورت اور پر فضا تھی۔ ہم بلندی پر پہنچ کر ٹرین میں بیٹھے جو 90 ڈگری زاویے سے ہمیں دامن کوہ میں دور نیچے لے گئی۔ ٹرین سے اترے تو متعدد واک ویز ملے جن پر پیدل چلنا، جانے اور واپسی کا دورانیہ منٹوں کے حساب سے تحریر تھا۔ ہر Walk Way ایک مسحور کن عجوبہ تھا۔ ہر طرف سیاحوں کا ہجوم تھا۔ ان سے بات چیت کی کوشش کی لیکن ادھر زبان یار ترکی نہیں چینی، جاپانی، تھائی اور کورین تھی۔

بہت سے اسکولوں کالجوں کے گروپ بھی اپنے ٹیچرز کے ہمراہ سیر تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے۔ چہار جانب مسحور کن وادیوں کے رستے تھے۔ دور نیچے تین پتلی پتلی پہاڑیاں تھیں جن کا نام Three Sisters تھا اور ان سے ایک رومانوی کہانی وابستہ تھی کہ وہ تین بہنیں قریبی قبیلے کے تین شہزادوں سے محبت کے جرم میں دشمن کے ہاتھوں پتھر کی پتلی لمبی پہاڑیوں میں تبدیل کر دی گئی تھیں اور کسی بھی وقت انسانی روپ میں واپس آسکتی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔