اوسلو، ستوانگر، اوسلو

امجد اسلام امجد  اتوار 5 نومبر 2017
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

مجھے اچھی طرح یاد ہے کوئی 25 برس قبل جب پہلی بار ناروے آنے کا موقع ملا تو اس وقت ہمارے لیے اوسلو اور ناروے ایک ہی مفہوم رکھتے تھے۔ اوسلو کی پاکستانی کمیونٹی اس وقت تقریباً پندرہ ہزار افراد پر مشتمل تھی اور ان میں سے تقریباً چودہ ہزار کا آبائی تعلق کھاریاں اور اس کے نواحی علاقوں سے تھا۔

ہمارے اولین میزبانوں میں سید مجاہد علی، جمشید مسرور، افتخار چوہدری (مرحوم) اور اسلم میر شامل تھے اور اس پہلی ناروے یاترا کے موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اگر کھاریاں نژاد حضرات کی آمد کا یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا تو اس ملک کی عرفیت ’’کھاروے‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔ 25 اکتوبر کی صبح ، میرے ہم سفر خالد مسعود خان تھے جب کہ عامر محمود جعفری ایک تنظیمی مصروفیت کی وجہ سے براستہ استنبول آرہے تھے۔ اوسلو کا نیا ہوائی اڈہ شہر سے تقریباً 50 میل کے فاصلے پر بنایا گیا ہے ۔ اوسلو کی کل آبادی چھ سات لاکھ کے درمیان ہے۔

معیشت کے اعتبار سے یہ اس وقت دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں یہاں تیل کی دریافت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کایا کلپ ہوگئی۔ یہاں کے عوام، حکومت اور اہل فکر و نظر نے مل کر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اس انتہائی سرد اور تاریخی اعتبار سے دورافتادہ، پسماندہ اور زندگی گزارنے کے حوالے سے مشکل سرزمین کو اس قدر خوبصورت اور دلکش ملک بنا دیا ہے کہ تعلیم، صحت، سوشل سیکیورٹی، رہائش اور امن کے حوالے سے ناروے اس وقت ایک مثالی ملک کی شکل اختیار کرگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اوسلو کا ہوائی اڈہ اپنی وسعت، خوبصورتی اور سیاحوں کی آمدورفت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کے معروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ شنجین ممالک کا ویزا رکھنے والوں مسافروں کی امیگریشن کی کارروائی اسی ملک میں مکمل کرلی جاتی ہے جہاں سے وہ ان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد وہ اپنے Exit پوائنٹ تک ہر جگہ آزادی سے اور بلاروک ٹوک مقامی لوگوں کی طرح نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔ عالمی حالات اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور خطرات کی وجہ سے اب یہ لوگ گاہے گاہے اضافی سوالات بھی کرلیتے ہیں مگر نہ تو کسی کو ناجائز طور پر تنگ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا لہجہ جارحانہ ہوتا ہے۔

ہمارا قیام اوسلو میں پی آئی اے کے دفتر کے عین سامنے واقع ایک عمارت کے اپارٹمنٹس میں تھا جن کے اندر ہر مطلوبہ سہولت موجود تھی۔ داخلی دروازے کا الیکٹرانک تالہ کسی ایسے اصول پر بنایا گیا تھا کہ ہر بار عقل سے زیادہ ’’قسمت آزمائی‘‘ سے کام لینا پڑتا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس تجربے میں مقامی میزبانوں نذیر قریشی، طیب میاں اور دیگر احباب سمیت سب کے سب کم از کم ایک بار ضرور ناکام ثابت ہوئے۔ پیدل چلنے کی کم پریکٹس کی وجہ سے اب شوق اور خواہش کے باوجود میرے لیے ایک ہی رو میں بغیر رکے زیادہ دیر چلنا مشکل ہوتا جارہا ہے جب کہ میرے دونوں ساتھی عامر جعفری اور خالد مسعود اس کے رسیا ہیں۔

ہماری رہائش گاہ سے ساحل سمندر تک کا فاصلہ کوئی 45 منٹ کا تھا جس کے دوران ہمیں مختلف آپس میں ملی ہوئی عمارتوں کے اندر اندر سے گزرنے کے ساتھ کئی سڑکوں اور چوکوں کو بھی کراس کرنا تھا۔ شدید سردی، موسم کی خرابی، برفباری اور تیز ہواؤں سے بچاؤ کے لیے شہر کو ڈیزائن اس طرح سے کیا گیا ہے کہ لوگ آسانی اور سہولت سے اپنی اپنی منزل کی طرف آجاسکیں۔ سو اوسلو کے ریل اور میٹرو کے مرکزی اسٹیشن تک تو ہم بھی خراماں خراماں چلتے چلے گئے مگر اس کے بعد سمندر تک کا علاقہ کھلے آسمان تلے تھا۔ سو بڑھی ہوئی سردی، تھکن اور دور تک نظر آتی ہوئی مسافت کی طوالت نے پروین شاکر کے اس شعر کو ایک نئی شکل دے دی کہ

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی یہ کچھ تھا ترا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

رستے میں اس عمارت کے سامنے سے بھی گزرے جہاں نوبل ادب کا پرائز دیا جاتا ہے۔ میرے دونوں ساتھی تصویریں بنانے اور بنوانے کے شوقین ہیں چنانچہ یہ سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ سو طے پایا کہ واپسی کے سفر کا کچھ حصہ مقامی بس کے تعاون سے مکمل کیا جائے۔

میاں عبدالشکور کے الفلاح اسکالر شپ پروگرام کے ساتھ پچھلی بار اوسلو میں افضال بھائی اور ناروے کے آئل کیپٹل ساحلی شہر ستوانگر میں ہمارے میزبان نوجوان ڈاکٹر عزیزی نوخیز احمد تھے۔اس بار بھی یہ ترتیب اوسلو میں جزوی اور ستوانگر میں کلی طور پر قائم رہی یعنی اوسلو میں ایک رات کا کھانا افضال صاحب کی طرف سے تھا جب کہ ستوانگر میں میزبانی کے تمام تر تقاضے عزیزی نوخیز نے ہی نبھائے اور بہت خوب نبھائے۔

اوسلو کی تمام تقریبات کی طرح وہاں کے اسلامک سینٹر کے سابقہ سربراہ اور ہردلعزیز شخصیت مولوی محبوب الرحمن ستوانگر میں بھی نہ صرف ہمارے شریک سفر تھے بلکہ ہم نے وہاں کی مسجد میں نماز جمعہ بھی ان ہی کی امامت میں ادا کی۔ ستوانگر کی پاکستانی کمیونٹی ہے تو مختصر مگر زیادہ تر لوگ نسبتاً نوجوان اور تعلیم کے اعتبار سے اعلیٰ ڈگریوں اور ملازمتوں کے حامل ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق آئل انڈسٹری، ٹیکنالوجی اور اس کے متعلقہ شعبوں سے ہے۔

ادب کا سنجیدہ طالب علم اور اپنی نسل کا نمائندہ اور عمدہ شاعر فیصل ہاشمی مجھے اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہے۔ وہ اور اس کی بیگم صنم عرف چندا (جو مرحوم دوست افتخار چوہدری کی بھانجی ہونے کے ناتے مجھے بھی ماموں کا درجہ دیتی ہے) ہمیشہ کی طرح بہت محبت سے ملے اور وقت کی کمی کے باوجود ضد کرکے ہمیں ایک ترکی ہوٹل میں لنچ کرانے کے لیے لے گئے جس کا کھانا ان کی محبت کی وجہ سے اور بھی پرلطف ہوگیا۔

جمشید مسرور سے فون پر مسلسل رابطہ رہا مگر ہماری بے ڈھب مصروفیات کی وجہ سے ملاقات کی شکل غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے چیریٹی مشاعرے کی تقریب میں ہی نکل سکی جب کہ سید مجاہد علی سے باوجود کوشش کے رابطہ نہ ہوسکا البتہ گلاسگو سے آئے ہوئے راحت زاہد اور اس کے میاں برادرم زاہد سے غیر متوقع اور خوشگوار ملاقات کے ساتھ اسلم میر سے ملنا بھی خوب رہا کہ جس نے اب نہ صرف اپنے نام کے ساتھ ’’شاعر‘‘ لکھنا بھی شروع کردیا بلکہ ایک عدد کتاب بھی چھپوالی ہے۔

یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جن سے اس اسلم میر کا دور کا تعلق بھی نہیں تھا، جس سے اسی شہر میں پہلی ملاقات ہوئی تھی اور جس نے گزشتہ تقریباً 25 برس میں اپنے سمیت کسی کو بھی اس طرح کے کسی انکشاف کا اشارہ تک نہیں دیا تھا۔ مشاعرے کے حصے کی نظامت جمشید مسرور اور بقیہ تقریب کا انتظام برادرم طیب میاں کے سپرد تھا۔ جمشید اور اس کے کچھ احباب سے تو تقریب کے بعد ایک نشست کا موقع مل گیا لیکن طیب کی شخصیت اور انتظامی صلاحیت کے جوہر کوپن ہیگن روانگی کے وقت سے کھلنا شروع ہوئے اور جن کے خوبصورت اور محبت بھرے تسلسل کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں مزید نکھار پیدا ہوتا چلا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔