الیکشن جاری ہے

عبدالقادر حسن  اتوار 5 نومبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جمہوری نظام کا تسلسل ابھی برقرار ہے، ہماری موجودہ حکومت اگلے سال اپنی جمہوری آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ جنرل الیکشن کا طبل بجنے کوتیار ہے اور سیاسی جماعتوں نے ابھی سے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے۔ الیکشنی جلسے جلوس جاری ہیں جن کا مقصد آئندہ انتخابات کے لیے اپنے ووٹرز کوسرگرم کرنا ہے ۔گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کا واویلہ ابھی تک جاری ہے۔

ضمنی انتخابات میں بھی دھاندلی اور جانبداری کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، اس کا پہلا نشانہ متعلقہ حکومت کے علاوہ الیکشن کمیشن ہی ہوتا ہے جو براہ راست حکومت کے ماتحتی میں کام کرتا ہے، اسلیے ہر بار الیکشن کمیشن کو ہی الیکشن میں خرابیوں کے بارے میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ملک میں انتخابات کے تمام مراحل اسی الیکشن کمیشن کی چھلنی سے ہو کر گزرتے ہیں، اب یہ اس کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ اس چھلنی سے الیکشنی امیدواروں کو کیسے گزارتا ہے۔

غیر جانبدار الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کا غیر جانبداری سے خود مختار اور فعال ہونا ضروری ہے۔ ماضی میں تو ہمارے سیاسی حکمران الیکشن کمیشن کو نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کیا کرتے تھے۔ کبھی یہ مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان تک کی کامیابی کا اعلان کردیتا تھا تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا بول بالا کر دیتا تھا ۔ اس کے بعد بھی ہونے والے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک ہی رہی اور الزامات کا ایک نہ ہونے ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔

گزشتہ انتخابات جس کے نتیجہ میں نواز لیگ کی حکومت وجود میں آئی ہے، ان انتخابات کو بھی دو بڑی پارٹیوں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے دھاندلی زدہ قرار دیا ہے اور تحریک انصاف تو ان میں سے کچھ حلقوں میں دھاندلی کے بارے میں عدالت میں بھی گئی اور باقی اب تک جوکچھ ہوا اس کو پاکستانی عوام نے غور سے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔

ملک میں سالوں بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہم نے کسی اور معاملے میں ترقی کی ہے یا نہیں لیکن آبادی کے ضمن میں ہم نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر لی ہے جس کے بعد اب آئندہ انتخابات بھی اسی مردم شماری کے نتائج کے تحت کرانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں نے پہلے تو اس بات پر اتفاق کیا کہ قومی اسمبلی کی سیٹوں میں اضافہ کیے بغیر صرف سیٹوں کی تعداد میں ہی ردو بدل کیا جائے لیکن جب اسمبلی میں اس کے بارے میں قانون سازی کی کوشش کی گئی تو دانستہ طور پر اکثر ارکان غیر حاضر ہو گئے اور یہ معاملہ تادمِ تحریر لٹک گیا ہے۔

مردم شماری کے نتائج میں ایک حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کی آبادی میں اضافہ کے بجائے کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں پنجاب کی سیٹوں کی تعداد کم ہو گئی ہے، اسی طرح کا معاملہ سندھ کے ساتھ بھی ہوا ہے ۔ یہ بات نہ ہضم ہونے والی ہے کہ کئی برسوں کے بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج میں اس قدر بھیانک غلطیاں کی گئی ہیں کہ آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی جب کہ ہم روزانہ شہروں میں آبادی کے بے تحاشہ اضافے کے نتائج بھگت رہے ہیں، سڑکوں پر گاڑیاں چلانے کی جگہ نہیں۔

آبادیوں میں اس طرح اضافہ ہوا ہے کہ صرف لاہور شہر کا طول و عرض ہی بگڑ گیا ہے اور یہ معلوم ہی نہیں پاتا کہ شہر شروع کہاں سے ہوتا ہے اس کا آخری سرا کون سا ہے لیکن اس کے باوجود ان نتائج کو ہمارے سیاستدانوں نے تسلیم بھی کر لیا اور ان پر لبیک بھی کہا ہے، یہ بھی ان سیاستدانوں کی کوئی حکمت اور مصلحت ہی ہو گی جس میں ان کا مفاد ہی وابستہ ہو گا۔

عوام تو اس منطق کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کیونکہ عوام تو ان نمائندوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بجھواتے ہیں لیکن وہاں پر یہ نمائندہ عوام کے بجائے اپنے مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے مردم شماری کے نتائج میں منتخب نمائندوں کی تعداد بڑھ جائے یا اس میں کمی ہو اس کا حاصل حصول کچھ نہیں ہونا اور عوام نے اپنے نصیب کو روتے ہی رہنا ہے۔

مردم شماری کے مطابق آبادی کے تناسب سے صوبوں کا وفاق سے حاصل ہونے محصولات میں اضافہ بھی ہوگا اور آبادی کے مطابق صوبوں میں وسائل کی تقسیم بھی ہو گی، نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے جس قدر جلد ہو سکے، یہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کی جانب مثبت پیش رفت ہو گی ورنہ ایک افواہ یہ بھی زیر گردش ہے کہ مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں تاخیر کو جواز بنا کر آئندہ انتخابات کو کچھ وقت کے لیے موخر کرنے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔

اس دوران عبوری حکومت اپنا کام کرتی رہے جس کی مدت بڑھانے کو آئینی تحفظ بھی دیا جا سکتا ہے بہر حال جو کچھ بھی ہو عوام کو اپنے نئے نمائندے منتخب کرنے کا جمہوری اور آئینی حق حاصل ہے اور نیک کام میں تاخیر کا خمیازہ ہم پہلے بھی کئی بار بھگت چکے ہیںجس کے نتیجہ میں غیر جمہوری قوتیں ایک طویل مدت تک حکمرانی کے مزے لوٹتی ر ہی ہیں، اگر اب بھی ہمارے سیاستدانوں نے انتخابات کے نیک کام کے بارے میں تاخیر کی تو اس کا خمیازہ بھی سیاستدان ہی بھگتیں گے کیونکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے دال میں کچھ تو کالا ہے کہ پہلے حلقہ بندیوں پر اتفاق کیاگیا اور اب اس سے کنی کترائی جا رہی ہے۔

انتخابات منعقد کرانے کی ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہوتی ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن ہی غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کی ضمانت بن سکتا ہے اگر الیکشن کمیشن کی خود مختاری مشکوک ہو گی اور اس پر حکومتی اثر ہو گا تو پھر آزاد اور منصفانہ انتخابات کا عمل مکمل نہیںہو پائے گا ۔ ہمارے ہاں جس طرز کی سیاسی حکومتیں رہیں، ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس ادارے کو خود مختار بنا دیتیں، یہ کام کوئی ایسی حکومت ہی کر سکتی تھی جسے کسی الیکشن کو اپنے حق میں لے جانے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی اورفوجی حکومتیں اپنے ایجنڈے اور مقاصد کے حصول کے لیے اسے غیر جانبدار بنانے سے گریز ہی کرتی رہیں جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں، اگر اس دفعہ بھی کوئی ایسی چالاکی دکھانے کی کوشش کی گئی تو یہ خدانخواستہ ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

دشمن تاک میں بیٹھا ہے اور دشمن کے آلہ کار بھی انتظار میں ہیں، اب مزید کسی غلطی کی گنجائش نہیں، اس لیے ایسا الیکشن نہیں ہو نا چاہیے جو کسی ایسے ریفرینڈم کی طرح ہو جو’’ منصفانہ ‘‘شروع ہوتا ہے اور آزادانہ ختم ہوتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔