پی سی بی کو مفادات کی سیاست سے آزادی دلانا ہوگی، محسن خان

عباس رضا  اتوار 5 نومبر 2017
اپنے اصل کام کی طرف توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ملک کا قیمتی ٹیلنٹ بچانے کے لیے محنت کریں تو زیادہ بہتر ہو گا، سابق اوپنر۔ فوٹو: ایکسپریس

اپنے اصل کام کی طرف توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ملک کا قیمتی ٹیلنٹ بچانے کے لیے محنت کریں تو زیادہ بہتر ہو گا، سابق اوپنر۔ فوٹو: ایکسپریس

اپنے کیریئر کے دوران 48 ٹیسٹ اور 75ون ڈے میچ کھیلنے والے اسٹائلش اوپنر محسن حسن خان کا شمار پاکستان کے ان بیٹسمینوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف ہوم گراؤنڈرز بلکہ بیرون ملک بھی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرنے میں کامیاب ہوئے،سابق ٹیسٹ کرکٹر پی سی بی کے ساتھ بطور چیف سلیکٹر وابستہ رہے، بعدازاں کوچنگ کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں تو ٹیم نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں لیکن غیر ملکی کوچ ڈیوواٹمور کو لانے کے شوق میں انہیں گھر بٹھا کر ٹیم کو مسائل کا شکار کردیا گیا،محسن خان کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

ایکسپریس: پاکستان ٹیم کی حالیہ کارکردگی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

محسن خان: حسن علی، بابر اعظم اور شاداب خان جیسے کھلاڑیوں کا انٹرنیشنل منظرنامے پر آتے ہی پرفارم کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں،اللہ تعالیٰ نے اس دھرتی کو بڑی نعمتوں سے نوازا ہے۔ زمین، آب و ہوا اور جفاکش عوام ہر چیز ہمارے پاس ہے، صرف میرٹ پر کام کرنے والی قیادت ہو تو ہر شعبہ بہتری کی راہ پر گامزن ہوجائے اور دنیا ہماری ترقی کی مثالیں دے، ملک میں ایسے باصلاحیت سابق کرکٹرز کی بھی کمی نہیں جو نا صرف ملک کے کونے کونے میں بکھرا ٹیلنٹ تلاش کرکے سامنے لا سکتے ہیں بلکہ اس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ٹیموں کو بامِ عروج تک بھی پہنچا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں گوری چمڑی والے کوچزکو اس لئے ترجیح دی جاتی ہے کہ وہ سفارشی کلچر کے عادی بورڈ عہدیداروں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے، غیرملکی ان کی سیاسی چالیں جانتے بھی ہوں تب بھی اپنی تنخواہ سے غرض رکھتے ہیں، ان کے پول نہیں کھولتے، یہ الگ بات ہے کہ وہ سارے معاملات دیکھتے اور آخر میں جاتے جاتے بورڈ کی برائیاں کرکے ہی جاتے ہیں، پاکستان کو خداد صلاحیتوں کے حامل کرکٹرز کا میسر آنا اور محدود اوورز کی کرکٹ میں گرین شرٹس کی کارکردگی خوش آئندہے لیکن آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں بھی تسلسل کے ساتھ عمدہ پرفارم کرنے کے لیے کھلاڑیوں کو ذہنی، تکنیکی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے لیے کام جاری رکھنا ہوگا۔

ایکسپریس: بطور کوچ اپنے تجربات کی روشنی میں کرکٹرز کی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کے لیے کیا مشورے دیں گے؟

محسن خان: کرکٹرز کی صلاحیتوں سے بہتر انداز میں کام لینے کا طریقہ یہی ہے کہ انہیں مسلسل احساس دلایا جاتا رہے کہ اس ملک نے تمہیں بہت زیادہ عزت دی ہے، اب اس کا پرچم سربلند رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے، سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے مجھے ذمہ داری سونپی تو میں نے 3 شرائط ان کے سامنے رکھ دیں، کسی سفارشی کو ٹیم میں شامل نہیں کروں گا، فٹنس کے معیار پر پورا نہ اترنے والے کو موقع نہیں دیا جائے گا، ڈسپلن خراب کرنے والے کو نکال دوں گا، اس پر ان کا کہنا تھا کہ میں سوچ رہا تھاکہ تم اپنی تنخواہ کی بات کرو گے، بہرحال انہوں نے میری درخواست پر غور کرتے ہوئے فری ہینڈ دے دیا، بعد میں اگر کوئی سفارشی اعجاز بٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کرتا تو وہ کہہ دیتے کہ محسن خان نہیں مانتا، نیک نیتی سے کام کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ پاکستان ٹیم ایک مثالی یونٹ میں ڈھل گئی، مصباح الحق کی قیادت میں کرکٹرز نے بڑی ٹیموں کے خلاف بے مثال فتوحات حاصل کیں۔میرا یہ خیال ہے کہ ادارے کا سربراہ ٹھیک ہو تو سارے معاملات درست ہو جاتے ہیں، اس وقت کرکٹ بورڈ میں چند ایسی شخصیات بیٹھی ہیں جن کو اپنی تنخواہوں اور سیر سپاٹوں سے غرض ہے،یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے، پی سی بی کی طرف سے مجھے دو بار براہ راست اور ایک مرتبہ بالواسطہ رابطہ کرتے ہوئے کام کرنے کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے انکار کر دیا۔

ایکسپریس: انضمام الحق سمیت دہری اور تہری ذمہ داریاں سنبھالنے والے عہدیداروں کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

محسن خان: معقول بات تو یہی ہے کہ بورڈ میں کسی حیثیت میں بھی کام کرنے والے عہدیدار کو دہری ذمہ داریاں دینے سے گریز کیا جائے، اعجاز بٹ نے مجھے کوچ بنانے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھو، جواب میں میرا کہنا تھا کہ سلیکٹر کا کام یہ نہیں ہے کہ 20، 25 لڑکوں میں سے 15 منتخب کرکے گھر بیٹھ جائے بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ اور دوردراز علاقوں سے نئے باصلاحیت کرکٹرز تلاش کرکے قومی ٹیموں کے لیے بیک اپ تیار کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے، یو اے ای میں اہم سیریز کے دوران بطور کوچ کام کرتے ہوئے سلیکشن کے معاملات کس طرح دیکھ پاؤں گا۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا، میری توجہ کوچنگ پر مرکوز رہی، پلیئرز کو عزت دی اور انہوں نے اپنی شاندار کارکردگی سے پاکستان کی عزت اور میرا حوصلہ بڑھا دیا، یاسر شاہ اور جنید خان سمیت کئی نئے کرکٹرز کو صوابی جیسے پسماندہ علاقوں سے ڈھونڈ کر لائے اور گروم کیا، اسی طرح کئی اور نوجوان کرکٹرز کو بھی اپنے کیریئر آگے بڑھانے کا موقع ملا۔ انضمام الحق بطور چیف سلیکٹر بہتر انداز میں ملک کی خدمت کرنا چاہیں تو ٹی وی پر میچز دیکھ کر بھی ٹیلنٹ تلاش کر سکتے ہیں، انگلینڈ میںجا کر منتخب کھلاڑیوں کے میچز دیکھنے کی ضرورت نہیں، یو اے ای میں ہونے والی ٹی ٹین لیگ کی ٹیم خریدنے یا کسی پی ایس ایل فرنچائز کا مینٹور بننا میرے خیال میں مناسب نہیں، اپنے اصل کام کی طرف توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ملک کا قیمتی ٹیلنٹ بچانے کے لیے محنت کریں تو زیادہ بہتر ہو گا، دہری، تہری ذمہ داریاں مسائل پیدا کرتی ہیں۔

ایکسپریس: آپ کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی اطلاعات میں کس حد تک صداقت ہے؟

محسن خان: عمران خان کے ساتھ کھیل چکا اور ان کو اچھی طرح جانتا ہوں، سابق کپتان فرشتہ نہیں، ان میں بھی کئی کوتاہیاں، غلطیاں اور خامیاں ہوں گی لیکن وہ قطعی طور پر جھوٹا، مکار اور لالچی آدمی نہیں، دنیا کے مختلف ملکوں میں کرکٹ کھیلنے اور وقت گزارنے کا موقع ملا ہے، یقین کریں کہ پاکستانیوں جیسا ٹیلنٹ کہیں نہیں دیکھا، بیرون ملک ہماری بھائی اور بہنیں ایسے شاندار کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ دنیا کو یقین نہیں آتا لیکن کرپشن کا گھُن اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہاہے، ایک محنتی قوم کی اصل پہچان کہیں کھوگئی ہے، عمران خان نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کرتے ہوئے عوام کو امید کی کرن دکھائی ہے،اگر اس ملک کو آنے والا کل بہتر بنانا ہے تو عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں کو آگے لانا ہوگا، دونوں کو اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سابق کپتان نے ورلڈکپ اکیلے نہیں پوری ٹیم کے ساتھ جیتا تھا، کسی بھی مشن کو مکمل کرنے کے لیے ٹیم ورک انتہائی اہمیت کا حامل ہے،تاہم کپتان اچھا نہ ہوتو ہر چیز کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، میں نے خود عمران خان کے ساتھ رابطہ کرکے کہا ہے کہ جب، جہاں اور جس انداز میں بھی میری خدمات کی ضرورت ہو، ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں، کرپشن اور سفارشی کلچر ختم ہو گیا تو پاکستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا، ملکی کرکٹ کو بھی عروج کی جانب گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پی سی بی کی کمان ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو اس کھیل کے اسرارورموز کو سمجھتے اور ذات کو پیچھے چھوڑ کر ملکی مفاد کے لیے فیصلے کرسکیں، مخصوص چہرے بار بار لانے سے ٹیلنٹ کا ضیاع پاکستان کا نقصان ہے، روشن مستقبل کے لیے بورڈ کو مفادات کی سیاست کرنے والوں سے آزادی دلانا ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔