آئندہ کبھی وزیر نہیں بنوں گا، پرویز رشید

ایکسپریس نیوز  اتوار 5 نومبر 2017
ایسی سواری جس کی لگام آپ کے ہاتھ میں نہ ہو اس کا کیا فائدہ ؟ نثار کی باتیں فرسودہ ہو چکیں۔ فوٹو: فائل

ایسی سواری جس کی لگام آپ کے ہاتھ میں نہ ہو اس کا کیا فائدہ ؟ نثار کی باتیں فرسودہ ہو چکیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید نے آئندہ کبھی وزیر نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی سواری جس کی لگام آپ کے ہاتھ میں نہ ہو اور وہ آپ کو پٹخ دے اس کا کیا فائدہ؟۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ٹو دی پوائنٹ کے میزبان منصور علی خان سے گفتگو کرتے  ہوئے انھوں نے کہا کہ آج  سے نہیں جب جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم تھے اور 58-2-B کا استعمال کرکے انہیں نکالا گیا تھا توانہیں اس وقت بھی معلوم تھا کہ وہ کیوں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیلیے پسندیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دنیا کے بارے میں اپنی ایک قدامت پسند رائے رکھتی ہے اور پاکستان  کے اندرونی معاملات کے حوالے سے بھی قدامت پسند پالیسیوں کی پیروی کرتی ہے۔

پرویز رشید نے کہا کہ نواز شریف ایک ترقی پسند اور مستقبل پر نظر رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ وہ ان چیزوں پر بھی نظر رکھتے ہیں جو آج سے بیس سال بعد پاکستان کے لیے ضروری ہوں گی۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ جب جنوبی ایشیاء میں کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ موٹروے کیا ہوتی ہے انہوں نے پاکستان کو موٹر وے دی۔ جب پاکستان میں موبائل فون آیا تو تیسری دنیا کے ممالک میں شاید ہی کسی کو موبائل فون ٹیکنالوجی کا علم تھا۔ جب پاکستان میں فائبر آپٹک دنیا کے کئی ممالک حتی کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی فائبر آپٹک موجود نہیں تھا۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ نواز شریف کے ہر مقدمے کا فیصلہ فوراً ہی کر دیا جاتا ہے ۔ ہفتوں اور مہینوں میں سزا دی اور وزیراعظم کو باہر بٹھا دیا۔ اورنج لائن ٹرین کے ایک مقدمے کا فیصلہ عرصے سے محفوظ کیا ہوا ہے۔ وہ اس لیے نہیں سنایا جاتا کہ کہیں پاکستان کے لوگوں کو ایک اچھی چیز مل گئی  تو نواز شریف کا ووٹ بینک کہیں دوبارہ مضبوط نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہاکہ یہ سیاست ہے جو کچھ لوگ عدالتوں اور مقدمات کے ذریعے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیسے نواز شریف جیسے ترقی پسند سیاست دان کو پس پشت رکھا جائے۔

لیگی رہنما نے کہ اکہ نواز شریف کے خلاف سازش کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ میڈیا اور سیاسی اور مذہبی انتہاپسندی اور عمران جیسے شخص کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے مگر دونوں نواز شریف کا تختہ الٹنے کے لیے نکل آئے تھے۔ مریم نواز کی سیاست کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اس وقت ان کی جو سیاست ہے وہ نواز شریف کے خیالات کا عکس ہے۔ نواز شریف کے آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو مریم نظر آئے گی۔

پرویز رشید نے کہا کہ کیپٹن(ر) صفدر نے جو باتیں کیں وہ ہم نے نوازشریف سے کبھی نہیں سنیں۔ نوازشریف دیوالی اور کرسمس کی تقریب میں بھی چلے جاتے ہیں۔ وہ ہرپاکستانی کو پاکستانی سمجھتے ہیں۔ پارٹی نے کیپٹن(ر) صفدر کو آئندہ ایسی گفتگو نہ کرنے اور محتاط رہنے کی تنبیہ کی ہے۔

وزارت چھن جانے کے بعد دوبارہ وزیرنہ بنائے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ نہ صرف آج بلکہ 2018 کے بعد بھی جب انشااللہ نواز شریف کو انتخابات میں کامیابی ملے گی اگر کوئی کہے گا بھی تو وہ وزیر نہیں بنیں گے۔ جو وزارت ان سے لی گئی وہ بھی ان کی خواہش نہیں تھی انہیںیہ کام کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ایسی سواری جس کی نہ لگام آپ کے ہاتھ میں  اور جس وقت اس کا دل کرے آپ کو پٹخ کر نیچے پھینک دے۔ اس سواری پر بیٹھنے سے پہلے وہ ذرا سوچتے ہیں۔

پرویز رشید نے کہا کہ نواز شریف نے 2013 کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی انہیںسزا دی جاتی۔ اگر نواز شریف نے کرپشن کی ہوتی تو اس کو سامنے لایا جاتا ، مقدمہ بنایا جاتا اور انہیں سزا دی جاتی۔ آج بھی انہیں اپنے جرم کا نہیں پتہ۔ الزام یہ لگا کہ آپ نے اپنے بیٹے سے تنخواہ لی تھی، جو کہ نہیں لی گئی تھی۔ شروع میں الزام لگا کہ انہوں نے پاکستان کو لوٹا ہے۔ ہمیں بتائیں کہ اقامہ میں پاکستان کو کہاں لوٹا گیا ہے؟ اقامہ میں اگر سارا بھی الزام تسلیم کر لیا جائے تو دس بارہ لاکھ روپے بنتے ہیں ۔ جو شخص اربوں کے اثاثے ظاہر کر رہا ہے  وہ دس ، بارہ لاکھ روپے کیوں چھپائے گا؟ کاغذات نامزدگی کے ساتھ اقامہ کی کاپی لگی ہوئی تھی۔ جو تنخواہ انہوں نے لی ہی نہیں تھی اس کو کیسے ظاہر کرتے؟ جو بیس سے تیس سال پرانے جرم نکالے جا رہے ہیں ان کی انکوائریاں بے نظیر بھٹو  کے دور میں ہوئیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ رحمان ملک نے لندن فلیٹوں کی انکوائری  کی ۔یہ الزام جھوٹا ہے۔ رحمان ملک آج موجود ہیں انہوں نے ان فلیٹوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کو ثبوت کیوں نہیں دیے اگر دیتے تو پھر سپریم کورٹ کو اقامہ پر سزا نہ دینا پڑتی۔  پرویز مشرف کے دور میں بھی ان الزامات پر نواز شریف کو سزا نہیں ہوئی۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ چوہدری نثار کی کوئی ذاتی رنجش یا ناراضی نہیں ہے۔ ان کا ایک نقطہ نظر ہے جو اس وقت سے ہے جب سے وہ سیاست میں ہیں۔ ان کی باتیں فرسودہ ہو چکی ہیں۔ آج کے زمانے میں ان کو قبولیت حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ وہ چودھری نثار کو بطور وزیرداخلہ نمبر تو کیا دیں گے ان کو شاید پاس ہی نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ  ہم اداروں سے ٹکراؤ نہیں کر رہے ہیں۔ ٹکر تو ہمیں ماری جاتی ہے۔ جو دو تہائی اکثریت لینے والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیتے ہیں، ٹکراؤ وہ کر رہے ہیں یا جو اس کے خلاف احتجاج کر رہا ہے ٹکراؤ کا الزام اس پر لگایا جائے گا؟ جو ہمیں ٹکراؤ کی پالیسی اختیار نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ ٹکر پاکستان کے نظام کو ، اس کے استحکام کو ، پاکستان میں ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو کون بار بار ٹکر مارتا ہے؟پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اٹھارہ وزرائے اعظم کو یہ ٹکر ماری گئی ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے ستر کی دھائی سے پہلے سے فرسودہ پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں۔ اگر فرسودہ پالیسی بہتر ہوتی تو پھر ایک دن میں دہشتگردی کے چھ، چھ واقعات نہ ہوتے، بیس ، بیس اور بائیس ، بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی، سڑکوں پر میلوں سی این جی لینے کے لیے قطاریں نظر نہ آتیں، بلوچستان میں لوگ پہاڑوں پر بندوقیں لے کر نہ چڑھتے اور آج دنیا کے مختلف ممالک کے دارالحکومتوں میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر نہ اگل رہے ہوتے۔ انہوں نے نے کہا کہ اگر فرسودہ پالیسیاں بہتر ہوتیں تو پاکستان آج مغربی پاکستان بھی ہوتا اور مشرقی پاکستان بھی ہوتا۔ فرسودہ پالیسیوں کے نتیجے میں آج پاکستان سکڑ گیا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کو پیپلزپارٹی سے رابطوں کی کیا ضرورت ہے کہ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ  2018 کے انتخابات کو اچھے طریقے سے انجام تک پہنچانے کیلیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کچھ کام کرنے ہیں۔ ان انتخابات کے لیے نگران حکومتیں بھی بنانی ہیں، قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی سے ہیں، مردم شماری کے نتیجے میں کچھ نئے قوانین بنانے ہیںان سب کے لی ان سے رابطہ تو کرنا پڑے گا۔تاہم میاں نواز شریف کی ذات کے حوالے سے انہیں کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وہ جائیں گے۔ ان کو ذاتی طور پر اپنی مدد کیلیے نہ پاکستان کے اندر اور نہ ہی پاکستان کے باہر کسی مدد کی ضرورت ہے۔  ہم  مدد کے لیے صرف پاکستان کے عوام کے پاس جاتے ہیں۔ ان سے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستان کے عوام نے  جی ٹی روڈ پر ہمارے لیے اپنے دل کھولے اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔آصف زرداری سے خواجہ آصف کے رابطے کی کوشش ہماری اپنی ذات کے لیے نہیں تھی بلکہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ  2018 کے انتخابات میں انشااللہ ہماری جماعت کو کامیابی ملے گی اور سب سے پہلے ہم نواز شریف کی عزت و وقار بحال کرانے کے اقدامات اٹھائیں گے۔ پرویز رشید کی سیاست کا محور ہی اب یہ ہے کہ ہماری جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل کرے ۔ اس کے لیے وہ بھرپور محنت کریں گے۔ وہ اپنے لیڈر کا کھویا ہوا وقار بھی بحال کرائیں گے۔ ان کی خواہش ہے کہ آئندہ وزیراعظم نواز شریف ہی ہوں۔ لیکن یہ نواز شریف کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ کس کو وزیراعظم مقرر کرتے ہیں۔

پرویز رشید نے کہا کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان بول چال بند ہونے کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ حمزہ ، مریم کی بہت عزت و احترام کرتا ہے۔ مریم ان سے بہت پیار کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔