لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری مستعفی

ایڈیٹوریل  پير 6 نومبر 2017
حزب اﷲ بھی اسرائیل کا ٹارگٹ ہے‘ ایران کو بھی وہ انتشار کا شکار کرنا چاہتا ہے۔فوٹو: فائل

حزب اﷲ بھی اسرائیل کا ٹارگٹ ہے‘ ایران کو بھی وہ انتشار کا شکار کرنا چاہتا ہے۔فوٹو: فائل

مشرق وسطیٰ میں بدامنی پھیلانے کا الزام عموماً مغربی سامراجی طاقتوں پر عاید کیا جاتا ہے مگر لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری نے یہ الزام ایران اور لبنان میں اس کی حامی عسکری تنظیم حزب اللہ پر عاید کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ سے وہ مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔

سعد الحریری نے الزام لگایا کہ ایران  خطے میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے جس کے نتیجے میں خطہ بدامنی کا شکار ہو گیا۔ سعد حریری کے الزام سے ایک بار پھر لبنان مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں صف اول میں شامل ہو گیا ہے۔ لبنانی وزیر اعظم نے سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ایک نیوز کانفرنس میں اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعد حریری کے والد رفیق الحریری بھی لبنان کے وزیر اعظم تھے مگر انھیں ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ لبنانی وزیراعظم سعد الحریری نے سعودی ٹی وی پر براہ راست خطاب کے دوران ایران پر خطے کو تباہی  کی طرف دھکیلنے کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ لبنان کی تنظیم حزب اللہ مکمل طور پر ایران کی گرفت میں ہے، دونوں لبنان کے علاوہ دیگر عرب ممالک میں بھی عدم استحکام کی وجہ بن رہے ہیں، اگر ایران کو نہ روکا گیا تو انتشار کی آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

سعد حریری نے کہا ہم ایک ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جیسی رفیق حریری کے قتل سے پہلے میں نے اپنے قتل کی درپردہ کوششوں کو محسوس کیا اور ان کی بنیاد شہید رفیق حریری کے وہ اصول ہیں جن پر میں یقین رکھتا ہوں۔ سعد حریری نے کہا میں نے محسوس کر لیا ہے کہ میری زندگی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے کیا پوشیدہ منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں جاری کشمش میں امریکا‘ مغربی ممالک اور اسرائیل کا ایک تسلیم شدہ کردار موجود ہے‘ لیکن بدقسمتی سے اس خطے کے مسلمان ممالک بھی بحران پیدا کرنے میں برابر کے شریک ہیں‘مسلم ملکوں کی باہمی آویزش کو مغربی ممالک نے ہوا دی جس کے نتیجے میں مشرق وسطی میں خانہ جنگی شروع ہے اور یہ ختم نہیں ہو رہی بلکہ حالات مزید کشیدہ اور خراب ہورہے ہیں۔

اصولی طور پر تو مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی قیادت کو اپنے اختلافات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں کیونکہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بڑھتے ہیں۔ لبنانی وزیراعظم نے جس ڈرامائی انداز میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور پھر استعفے کی جو وجوہات بیان کیں‘ اس سے مشرق وسطیٰ میں حالات مزید خراب ہوں گے۔انھوں نے یہ اعلان سعودی عرب میں کیا جس سے ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی مزید بڑھے گی۔

یمن‘ شام اور عراق پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہیں‘ لبنان طویل عرصے کے بعد کسی حد تک پرامن ہو گیا تھا لیکن اب ایک بار یہاں حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے‘ اس صورت حال کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہو گا کیونکہ اسے اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک خود ہی ایک دوسرے کے خلاف لڑنے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ حزب اﷲ بھی اسرائیل کا ٹارگٹ ہے‘ ایران کو بھی وہ انتشار کا شکار کرنا چاہتا ہے جب کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی اس کے نشانے پر ہیں۔

شام‘ عراق اور یمن پہلے ہی تباہ ہو چکے ہیں‘ اس لیے اسرائیل کا کام بہت آسان ہو گیا ہے‘ اسرائیل کی کوشش ہو گی کہ انتشار کو مزید بڑھاوا دیا جائے‘ امریکا اور یورپی ممالک بھی ایسا ہی کریں گے‘ اب اگر فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا ہے تو مسلم ممالک نے کرنا ہے‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ عقیدے‘ مسلک یا مفادات کی اس لڑائی میں ان کا سراسر نقصان ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ہوش مندی کا ثبوت دیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں‘ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔