کثافت

راؤ منظر حیات  پير 6 نومبر 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

لندن میں ٹریفک رواں دواں تھی۔ گاڑیوں کااژدہام، سیاحوں کی بھرمار، یعنی ہرچیز ایسے ہی تھی،جیسے سردیوں میں ہوتی ہے۔1952ء کادسمبرتھا۔5دسمبرکوجمعہ تھا۔ہنری سکون میں تھاکہ ویک اینڈپردوچھٹیاں میسرہوں گی اور وہ بیوی اوربچی کے ساتھ وقت گزارسکے گا۔ صبح بسترسے اُٹھنے کے بعدکمرے کی کھڑکی کھولی توحیران رہ گیا۔باہرکچھ بھی نظرنہیں آرہاتھا۔

گمان ہواکہ شائدشیشے صاف نہیں ہیں۔ شیشے صاف کیے اوردوبارہ باہر دیکھا تب بھی کچھ نظرنہ آیا۔ گھبراکرکھڑکی کھولی توکمرہ دھوئیں سے بھرگیا۔ہنری کولگاکہ وہ نابیناہورہا ہے۔ آنکھوں میں شدیدجلن شروع ہوگئی۔کھانسی کاشدیددورہ پڑا۔سانس لینے میں تکلیف شروع ہوئی اور بے دم ساہوگیا۔ ہنری کوکچھ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ اس کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ پہلاگمان یہ ہواکہ شائد  جنگ شروع ہوچکی ہے۔

لندن پربمباری ہورہی ہے۔نتیجہ میں گرداوردھواں ہرطرف پھیل چکاہے۔ مگر بمباری کی توبھیانک آوازہوتی ہے اوروہ پوری رات آرام سے سویا تھا۔پھرہنری سوچنے لگاکہ شائدکوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ اس نے انگلی کودانتوں میں چبایاتوزندہ تھااورہوش وحواس میں تھا۔ باہرنکل کردیکھاتوہرطرف دھند پھیلی ہوئی تھی۔ گھرسے چندفٹ باہراپنی گاڑی تک نظرنہیں آرہی تھی۔اردگردکوئی مکان بھی دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ ہنری ڈرگیا۔واپس آیااورکمرے کے کونے میں کرسی پربیٹھ گیا۔

صرف ہنری کے گھراورباہرکے حالات ہی ایسے نہیں تھے بلکہ پورے لندن پرایک غلیظ کثافت کاعفریت چھاچکا تھا۔ 5دسمبرسے لے کر8دسمبرتک یہ دھواں پورے لندن پرقابض رہا۔چاردنوں میں بارہ ہزارلوگ مرگئے۔ ایک لاکھ انسان سانس کی بیماریوں سے اسپتالوں میں پہنچ گئے۔لندن جیسے شہرمیں پبلک ٹرانسپورٹ بندکردی گئی۔وہ ٹرینیں بھی بندکرناپڑیں۔حدتویہ ہے کہ ایمبولینس سروس بھی چاردن کے لیے معطل رہی۔دھندکے مضراثرات محض تین چاردن تک محدودنہیں رہے۔بلکہ اگلاپوراسال اسپتال مریضوں سے بھرے رہے۔

شہرمیں کہرام مچ گیا۔ سائنسدانوں کے لیے سوچنے کامقام تھاکہ سب کچھ کیونکر اور کیسے ہورہاہے۔ تجربات سے ثابت ہواکہ ہوامیں سلفراورنائٹروجن موجود ہے جوفضامیں موجودپانی کے ساتھ شامل ہوکرزہربنارہی ہے۔یہ بھی معلوم ہواکہ ادنیٰ درجے کے کوئلے ک کا دھواںفضائی آلودگی پیداکررہا ہے بلکہ بڑھارہا ہے۔ یہ کوئلہ ملوں اورگھروں دونوں میں استعمال ہورہاتھا۔صنعتی ادارے بے تحاشا کوئلہ استعمال کررہے تھے اوراس سے سموگ  بن رہی تھی۔ایک عجیب بات اوربھی ہوئی۔

اخباروں میں شایع ہواکہ برطانیہ کے دشمن ملک یعنی فرانس نے انتہائی زہریلاموادفضامیں شامل کیا ہے۔ہواچلتے چلتے لندن پہنچ گئی ہے۔ہنری اسی فوگ سے بیمارہوا اور اسپتال پہنچ گیا۔ دوچاردن میں سانس کی شدیدبیماری میں مبتلاہوکر دنیا سے رخصت ہوگیا۔

لندن کی صورتحال نے پوری مہذب دنیا کی حکومتوں کوسوچنے پرمجبورکردیاکہ فضائی آلودگی سے کیسے محفوظ رہاجائے۔یہ جدوجہدآج بھی جاری ہے۔معلوم ہواکہ ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں اورکارخانے آلودگی پیدا کررہے ہیں۔مغربی دنیانے سب سے پہلے ڈیزل کے استعمال کوتواترسے ختم کرنے کی مہم شروع کردی۔اس میں انھیں کامیابی ہوئی تودس سے پندرہ فیصدمعاملات بہتر ہوگئے۔ان ممالک نے یہ بھی اندازہ لگایاکہ گاڑیوں کابے تحاشا استعمال آلودگی کوبڑھارہاہے اورانسانی جان کے لیے ایک زہرقاتل بن چکاہے۔

مقامی حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کوبہترین بنانے کے لیے تمام کوششیں شروع کردیں۔اس میں یہ ترکیب بھی استعمال کی گئی کہ شہرکے سب سے رش والے علاقوں میں کاروں کی پارکنگ اس درجہ مہنگی کردی جائے کہ لوگ مجبوراًوہاں گاڑیاں نہ لائیں۔یہ حکمتِ عملی بھی موثرثابت ہوئی۔آج لندن،پیرس اوربرلن میں بازاروں میں گاڑیاں کم سے کم نظرآتی ہیں۔وجہ صرف یہ کہ عوام اور خواص کی سہولت کے لیے اتنی آرام دہ بسیں اورٹرینیں چل رہی ہیں کہ اکثریت ذاتی گاڑی کواستعمال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ساتھ ساتھ مہذب ملکوں نے سائیکلوں کے سفرکے لیے علیحدہ ٹریک بنادیے۔اس پرہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ روزانہ سفرکرتے ہیں۔

اس وقت لاہوربالخصوص اورپنجاب بالعموم زہریلی دھندکے اندرڈوباہواہے۔صبح سے لے کرشام تک بلکہ رات تک فضامیں دھویں کے غلیظ بادل ہردم موجودرہتے ہیں۔ رات کوجیسے ہی درجہ حرارت کم ہوتاہے تویہ آلودگی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ سڑک پرکچھ بھی نظرنہیں آتا۔موٹروے اوردیگرسڑکیں یاتوبندکردی جاتی ہیں یاان پرموت کارقص شروع ہوجاتاہے۔صورتحال اس درجہ مشکل ہے کہ کھڑکی کھولنے سے ایک دم کمروں میں گدلاسا دھواں آہستہ آہستہ آناشروع ہوجاتاہے۔

حتیٰ کے سانس لینا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ان علاقوں کی کیفیت بتارہا ہوں، جہاں سبزہ اوردرخت کثرت سے موجودہیں۔جہاں یہ نعمتیں نہیں ہیں،وہاں کی صورتحال حددرجہ تکلیف دہ ہے۔اس کیفیت کاغیرمتعصبانہ جائزہ لیناضروری نہیں بلکہ اَشد ضروری ہے۔W.H.Oکی لسٹ کے مطابق دنیاکے دس غلیظ ترین شہروں میں چین،کیمرون،ہندوستان،پاکستان اورایران کے شہرشامل ہیں۔فضائی آلودگی کی بدولت سب سے تباہ حال شہریوڈنگ ہے جوچین میں واقع ہے۔

ماہرین کے مطابق فضاکے ایک میٹرمیں بیس مائیکروگرام کثافت ہوتوخطرناک ہوجاتی ہے۔لاہورمیں یہ تعدادد و سومائیکروگرام تک پہنچ چکی ہے۔اسکاکیامطلب ہے کہ فضامیں ہرطرف آلودگی کاراج ہے۔دراصل ہم لوگ ہوامیں نہیں بلکہ زہر میں سانس لے رہے ہیں۔ایک اورتجزیہ کے حساب سے یہ آلودگی تین سوکی خطرناک ترین حدکوبھی پارکرچکی ہے۔اس سروے کے مطابق آج لاہورکی آلودگی337ہے۔یہ بے حدمشکل اورتشویشناک مسئلہ ہے۔اس درجہ کی قیامت کی ایک توجیہہ تویہ دی جارہی ہے کہ ہندوستان میں فصل کٹنے کے بعدلاکھوں کی تعدادمیں کھیت جلائے جارہے ہیں۔ اس سے پیداہونے والادھواں آہستہ آہستہ لاہوراورپنجاب کو لپیٹ میں لے رہاہے۔

جیسے ہی کھیت جلنے بند ہونگے، صورتحال معمول پرآجائے گی۔یہ بالکل اسی طرح کی دلیل ہے جونصف صدی پہلے لندن میں دی گئی تھی،کہ دشمن ملک یعنی فرانس نے ہماری فضاکوبربادکرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سب کچھ کیادھرادشمن کاہے۔چلیں،ایک لمحے کے لیے ہم اس اَمرکومان بھی لیتے ہیں،توکیاواقعی سب کچھ اتناسادہ سا ہے۔یہ صرف اورصرف تھوڑاساسچ ہے۔آدھاسچ بھی نہیں ہے۔سب سے پہلے توسوال یہ ہے کہ کیاہمیں اندازہ ہے کہ لاہوریاپنجاب میں ڈیزل پرچلنے والی گاڑیوں کی اصل تعدادکتنی ہے۔

کیاکوئی سمجھدارحکمران یہ فیصلہ کرسکتاہے کہ ان تمام کومکمل طورپربندکردیاجائے۔قطعاًنہیں۔کوئی یہ جرات نہیں کرسکتا۔کیونکہ لوگ ناراض ہوجائینگے۔ووٹ کم ہوسکتے ہیں۔انسان کیڑوں کی طرح مرتے رہیں مگراس پربات کرنے کے لیے کوئی تیارنہیں اورہوگابھی نہیں۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ کیاہمیں معلوم ہے کہ فیکٹریوں،بھٹوں اور کارخانوں میں کس درجہ کاکوئلہ استعمال ہورہاہے۔کوئلے کو رہنے دیجیے۔کارخانوں میں ٹائراورپلاسٹک جلایا جارہا ہے۔اس سے صرف اورصرف زہرپیداہورہاہے۔

کیاکسی میں ہمت ہے کہ ان تمام کارخانوں اوراداروں کوفی الفوربند کردے،جو آلودگی کاسبب ہیں۔ایک نمائشی ہدف سامنے آجاتاہے جس پرکوئی بھی یقین نہیں کرتا۔ہمارانظام اس درجہ بے بس ہے کہ کئی فیکٹریاں رات کے اندھیرے میں بھرپورطریقے سے چلتی ہیں۔آلودگی پیداکرتی ہیں۔صبح مکمل طورپر بند ہوتی ہیں۔قانون اس حدتک کمزورہے کہ کوئی ان کے مالکان کوٹکٹکی پرنہیں باندھ سکتا۔آگے چلیے۔بڑھتی ہوئی آبادی کا سیلاب ہے۔اتنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کوکیسے کنٹرول کیاجاسکتاہے۔اس پربات کرنامذہبی حوالے سے مشکل بنادیاگیاہے۔

اگرکھل کربات کی جائے کہ بڑھتی ہوئی آبادی ہماری بربادی کاسبب بن چکی ہے توہوسکتاہے کہ کئی مذہبی گروہ حددرجے ناراض ہوجائیں۔بلکہ احتجاج کرناشروع کردیں۔کوئی صاحب عقل یہ بات نہیں کررہا کہ بنگلہ دیش بھی توایک مسلمان ملک ہے۔وہاں آبادی پر مکمل کنٹرول کیسے حاصل کیاگیا۔وہاں کے علماء نے احتجاج کیوں نہیں کیا۔آخر ان سے یہ توسیکھناچاہیے کہ انھوں نے اس مشکل مسئلہ کوکیسے حل کیا۔مگریہاں کون سیکھے گااورکیوں سیکھے گا۔ آبادی کے سیلاب کافطری ردِعمل آلودگی ہے۔ مگر یہاں کسی کوکوئی فکرنہیں۔

بہت سے اہم نکات یاسوالات ہیں۔مگریہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اپنے شہروں،قصبوں،دیہات میں نئے درخت کتنے لگارہے ہیں۔لاہورشہرمیں کتنے نئے پارک بنارہے ہیں۔اپنے جنگلات میںنئے درخت لگانے کے لیے کتنی محنت کررہے ہیں۔ اس سوال کاجواب کیاہے۔کم ازکم میرے علم میں نہیں۔اب سوچیے کہ جب ہم آلودگی کوکم یاختم کرنے کے لیے بنیادی سوچ اوراقدام نہیں کررہے تونتیجہ کیاہوگا۔وہی جواس وقت ہمارے ساتھ ہورہاہے۔

عام آدمی تومجبورہے کیونکہ اس کے بس میں کچھ نہیں۔مگرخواص کیوں چپ ہیں۔ جنھیں معلوم ہے کہ یہ دھندان کے لیے بھی زہرقاتل ہے۔ اگراس موقعہ پربھی روایتی مصلحت پسندی سے کام لیا گیا تویہ کثافت ہمارے جسموں کے ساتھ ساتھ ہماری روحوؤں اورذہنوں میں بھی گھربنالے گی۔ہم اس گندکوکسی طریقے سے صاف نہیں کر پائینگے۔ ہاں،ایک دوسرے سے ضرور پوچھیں گے کہ اس مسئلہ کاحل کیاہے۔بلکہ یہ مسئلہ ہے کیا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔