ملک بھر میں دینی مدارس کا آڈٹ جلد شروع ہوگا

ناصر الدین  پير 6 نومبر 2017
نیشنل ایکشن پلان کے تحت 200 سے زائد مدارس مشکوک قرار دے کر بند کیے جا چکے۔ فوٹو: فائل

نیشنل ایکشن پلان کے تحت 200 سے زائد مدارس مشکوک قرار دے کر بند کیے جا چکے۔ فوٹو: فائل

کراچی: ملک بھر میں دینی مدارس کا آڈٹ جلد شروع ہوگا جبکہ مدارس کو سالانہ آڈٹ کے لیے نوٹسز بھیجے جائیں گے۔

وفاقی حکومت نے ملک بھرکے تمام دینی مدارس کے سالانہ آڈٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان پانچ تنظیمات پر مشتمل بورڈ ہے جس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان، تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، وفاق المدارس السلفیہ ، رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان شامل ہیں۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان (دیوبند) کے تحت رجسٹرڈ مدارس کی تعداد سب سے زیادہ ہے یعنی کل مدارس و جامعات کی تعداد19 ہزار 3 سو ہے جن میں زیرتعلیم طلبا و طالبات کی تعداد27 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان (بریلوی) سے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 9 ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں زیرتعلیم طلبا و طالبات کی تعداد تقریبا 14لاکھ کے لگ بھگ ہے تنظیم المدارس کے تحت سندھ بھرمیں مدارس کی تعداد 950کے لگ بھگ ہے کراچی میں تعداد 250 ہے جس میں ہزاروں طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

وفاق المدارس السلفیہ پاکستان (اہلحدیث) سے رجسٹرڈ مدارس کی ملک بھرمیں تعداد 2400 سے زائد ہے وفاق المدارس السلفیہ کے تحت دینی مدارس کی تعداد میں گزشتہ پانچ سالوں میں 400 کا اضافہ ہوا ہے۔

رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان (جماعت اسلامی) سے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد تقریبا 5 ہزار ہے ، ذرائع کے مطابق ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے مدارس کی تعداد بھی 10ہزار سے زائد ہے جواب تک رجسٹرڈ نہیں ہوئے ہیں گزشتہ ڈھائی سال میں کراچی میں1000 سے زائد دینی مدارس کورجسٹرڈ کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھرکے 200سے زائد مدارس کو مشکوک قرار دے کر بند کیا جا چکا ہے، ذرائع کے مطابق ملک کے بیشتر مدارس کمیونٹی فنڈنگ کی بنیاد پرچلائے جارہے ہیں، ان مدارس میں زیرتعلیم طلبا وطالبات کی دینی تعلیم کے ساتھ کفالت کی ذمے داری بھی متعلقہ مدارس انتظامیہ خود انجام دیتی ہے۔

مدارس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ حکومت دینی مدارس کی کوئی مالی مدد نہیں کرتی ہے اور دینی مدارس اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔