امریکا کے ساتھ اعتماد کا فقدان آج بھی برقرارہے، وزیر خارجہ

ویب ڈیسک  پير 6 نومبر 2017
پاکستان اور امریکا کے مابین تناوٴ کی کیفیت اچھی نہیں، خواجہ آصف۔ فوٹو : فائل

پاکستان اور امریکا کے مابین تناوٴ کی کیفیت اچھی نہیں، خواجہ آصف۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ  امریکا کے ساتھ اعتماد کا فقدان آج بھی برقرارہے جب کہ امریکا کی مشروط پالیسی سے افغان مفاہمتی عمل کو دھچکا لگا۔

اسلام آباد میں جاری پاکستان اور امریکا کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات کے چوتھے دور میں اظہار خیال کرتے ہوئے  وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ خطے میں صورتحال پیچیدہ اور نئی امریکی پالیسی پر اختلاف رائے ہے، ہم ایک مستحکم اور محفوظ افغانستان چاہتے ہیں، ایک تقسیم شدہ معاشرہ مفاہمتی عمل کو مشکل بنا رہا ہے، افغانستان میں حکومت اختلافات کا شکار جب کہ منشیات اور لا قانونیت عروج پر ہے لہذا افغان مسائل کا الزام پاکستان کو نہیں دیا جا سکتا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمیں آبی، مہاجرین کے مسائل، افغانستان، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے نمٹنا ہے تاہم امریکا کی مشروط پالیسی سے افغان مفاہمتی عمل کو دھچکا لگا، افغانستان کو معاشی چیلنجز، پوست کی کاشت، منشیات اسمگلنگ اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنا ہو گا جب کہ پاکستان کی قربانیوں کے باوجود پاکستان پر الزام تراشی افسوسناک ہے، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے انٹیلی جنس تعاون ناگزیر ہے، ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہو۔

وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان میں بھارت کے وسیع تر کردار کے خلاف ہیں، افغانستان کے لیے پاکستان اور امریکا کا کردار اہمیت کا حامل ہے، پاکستان اور امریکا نے سوویت یونین اور القاعدہ کو مل کر خطے سے نکالا، پاکستان اور امریکا کے مابین تناوٴ کی کیفیت اچھی نہیں لہذا دونوں ممالک کو تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اپنے ملکی مفاد میں کررہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے دفاع کی جنگ ہے جب کہ پاک بھارت تنازعات کے خاتمے کیلئے امریکی کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : امریکا کو بتادیا کہ قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں

مذاکراتی دورکے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت اختلافات موجود ہیں اور امریکا کے ساتھ اعتماد کا فقدان آج بھی برقرارہے تاہم رابطے بھی ضرور قائم ہیں، دہشت گردوں کے پناہ گاہوں کے بارے اقدامات افغانستان نے خود کرنا ہے تاہم امریکا کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا قطعی غلط ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : امریکا کو بتادیا کہ قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے مسائل افغانستان کے اندر ہیں جو افغانی حکومت نے ہی حل کرنے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہمارے افغان بھائی امن میں رہ سکیں، افغان امن ہماری اولین ترجیح ہے کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے ضروری ہے، افغانستان میں امن ہماری خواہش ہے لیکن الزاشی تراشی کی بجائے مثبت کرداراداکرناچاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان دہشت گردی کے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے، افغانستان کی ساری معیشت اور ڈرگ ٹریڈ کی وجہ سے پریشرگروپس چاہتے ہیں یہ جنگ جاری رہے جب کہ افغان مہاجرین کے بارے میں امریکا کی الزام تراشی قابل قبول نہیں۔

دوسری جانب امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ پاکستانی قیادت نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں تیز کرنے کا یقین دلایا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت سے افغانستان میں اقتصادی سطح پر ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے اس پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔

امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ہمیں طالبان پر اس وقت تک دباؤ جاری رکھنا ہے جب تک وہ مذاکرات کی میز پر نہیں آجاتے اور خواتین کا احترام و اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتے، جب کہ ٹرمپ حکومت تمام مسلح گروہوں کے ساتھ ایک ہی طریقے سے نمٹے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔