ماحولیاتی آلودگی

شکیل فاروقی  منگل 7 نومبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

لینسیٹ کمیشن (Lancet Commission) کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آلودگی آج پوری دنیا میں بیماری اور ناگہانی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً تین لاکھ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے واقع ہورہی ہیں جو انتہائی خطرناک اور بھیانک شرح ہے۔ یہ شرح وطن عزیز میں حادثات کی وجہ سے ہونے والی اموات سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں ملیریا، تپ دق اور ایڈز سے جو لوگ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کی بھینٹ چڑھ کر مرنے والوں کی مجموعی تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ بلاشبہ یہ شرح بے حد تشویشناک ہے۔

2014 میں منظر عام پر آنے والی عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 22 ہزار 600 کے لگ بھگ لوگ براہ راست یا بلا واسطہ ہوائی آلودگی کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں وطن عزیز میں دمہ اور سانس کے دیگر امراض بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں جن کا علاج اگر شروع ہی میں نہ کرایا جائے تونتیجہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرلیتا ہے اور مریض کی زندگی ناگہانی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO)کے اندازے کے مطابق 2012 میں پاکستان میں واقع ہونے والی ایک لاکھ اموات میں 87.2 اموات کا بنیادی سبب گھرکے اندر اور باہر کی آلودگی کے سوائے کوئی اور نہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اس سال وطن عزیز میں واقع ہونے والی اموات میں 155,000 اموات صرف گھر کے اندر اور گھر کے باہر کی ہوائی آلودگی کے باعث واقع ہوئیں۔

اس کے مقابلے میں 2003 سے 23 اکتوبر 2017 تک دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد صرف 62 ہزار 534 ہے۔ ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سب سے خوفناک زہر قاتل ہے۔

نازل بلا کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آلودگی کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

فضائی آلودگی سے متاثرہ شہری آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر کے ممالک میں سر فہرست ہے جو نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ باعث شرم بھی ہے۔ گویا:

بدنام بھی ہم ہوںگے تو کیا نام نہ ہوگا

جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان کی شہری آبادی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ لوگوں میں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے والوں کا رجحان پاکستان میں جنون کی حدوں کو چھو رہا ہے جس کے اسباب ایک الگ موضوع بحث ہے جس کی جانب سے حکومت نے آنکھیں بالکل بند کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے یہ پرانی کہاوت بھی یاد آرہی ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ بہر حال گاؤں دیہات سے شہروں کا رخ کرنے کا یہ رجحان وفاقی اور صوبائی، دونوں ہی حکومتوں کی فوری اور بھرپور توجہ کا مستحق ہے، اگر اس رجحان کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو شہری آبادیوں پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا جو پہلے ہی اپنی حدیں پار کرچکا ہے۔

پاکستان کی شہری آبادیوں میں بے تحاشا اضافہ ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے اضافے کا بہت بڑا سبب ہے۔ اس سے جی ڈی پی اور صحت کے شعبے پر خرچ ہونے والی رقومات کی شرح پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ عذاب غریب طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے جس میں خواتین، بچے اور بوڑھے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کم متوسط آمدنی والے پاکستان جیسے ممالک میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔

سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے کیونکہ انھیں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے سے زیادہ اور کسی چیز کی ذرا بھی فکر نہیں۔ ان کا سارا وقت اپنے آپ کو بچانے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی نذر ہو رہاہے۔ جس جمہوریت کا دن رات وہ راگ الاپتے رہتے ہیں اس کی حیثیت گھر کی لونڈی سے زیادہ نہیں ہے ان کی تمام تر توجہ اپنے اثاثوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے پر مرکوز ہے۔ رہی بات حزب اختلاف کی تو اسے کسی نہ کسی طرح مسند اقتدار پر قبضہ کرنے کی جستجو سے ہی فرصت اور فراغت نہیں ہے۔ عوام بے چارے تو بس سیاسی تندور کا محض ایندھن ہے۔ سیاست دانوں کے نزدیک ان کی حیثیت  بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں ہے۔

چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سے کسی کو بھی ماحولیاتی آلودگی جیسے سنگین عوامی اور قومی اہمیت کے حامل مسئلے کی جانب خاطر خواہ توجہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ذرا اک سرسری سی نظر ہماری سیاسی جماعتوں کے منشوروں پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان میں نہ تو ماحولیاتی آلودگی کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی صنعتی زہریلے اور کیمائی مادوں کے اخراج کا کوئی تذکرہ ہے۔ گویا ان کے نزدیک حفظان صحت کو کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں ہے یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے صنعتی شعبے میں ماحولیاتی آلودگی کو عملاً نظر انداز کردیاگیا ہے ہمارے صنعتی اداروں میں خراج پذیر ہونے والے کیمائی مادوں سے متعلق جو معیارات رائج ہیں وہ انتہائی ناکافی، ناقص اور فرسودہ ہیں۔

تحفظ ماحولیات کے صوبائی اداروں میں کارکردگی صرف برائے نام رہ گئی ہے۔ حالانکہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک تو ماحولیاتی تحفظ کے محکموں کے لیے  مختص کیے جانے والے بجٹ بہت ناکافی ہیں، دوسرے ان اداروں میں کرپشن کی وجہ سے ان کی رہی سہی کارکردگی بھی بری طرح سے متاثر ہورہی ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارا میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا بھی اس معاملے میں اپنا بھرپور کرار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا بھی زیادہ تر وقت سیاسی دنگل اور پبلک انٹرٹینمنٹ کے فضول قسم کے پروگرام نشر کرنے میں ضایع ہو جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان کے اندرگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شدت سب سے زیادہ ہے، جس کے عوامی صحت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے، شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی اور Fossil Fuels پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ وطن عزیز میں اور بھی سنگین صورت اختیار کرلے گا۔ اس میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار بھی شامل ہے۔

خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور اب ہماری حکومت کو جاگ جانا چاہیے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور ایک انتہائی ملک گیر پلیوشن مینجمنٹ پروگرام کی تیاری کے لیے ایک بین الوزارتی کمیشن تشکیل دیں۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بھی ماحولیاتی آلودگی سے عوام کے بچاؤ کی تمام ممکنہ تدبیریں بلا تاخیر اختیار کریں۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ یہ کام ہنگامی انداز میں جنگی بنیادوں پر انجام دیا جائے۔

ہمارا سب سے سچا دوست ملک چین اس معاملے میں ہمارے لیے ایک رول ماڈل کا درجہ رکھتا ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے اور جس کی وزارت بے حد مستعد اور فعال ہے۔ چین پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے والے آلات کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے چین پاور پلانٹس کے لیے تحفظ ماحولیات کے قواعد و ضوابط بھی بڑے سخت ہیں۔ چین کی حکومت کو اپنے عوام کی صحت اور تندرستی کے تحفظ کا بہت احساس ہے۔ اسی لیے وہ اپنے شہریوں کو بجلی سے چلنے والی موٹرگاڑیاں مہیا کرنے کے لیے بے حد کوشاں ہے آج جب کہ ہم سی پیک کے تحت چین کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کررہے ہیں ہم ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں بھی چین کے تعاون سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔