قاری اور کتاب کا رشتہ زوال پذیر کیوں؟

شاہین رحمن  منگل 7 نومبر 2017

ادب کو علم کا زیور کہا جاتا ہے اور علم انسانی ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے، تہذیبوں کو جنم دیتا ہے، معاشروں کو پروان چڑھاتا ہے اور ایسا کرنے میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جب تک کوئی معاشرہ کتاب سے منسلک رہتا ہے وہاں ترقی کا سفر جاری رہتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستانی معاشرہ گزشتہ دو دہائیوں سے کتاب بینی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

تجزیہ کار اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سب سے پہلے ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج، انسانی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ، کمرشلائزیشن، تیز رفتار طرز زندگی اور معیاری ادب کا تخلیق نہ ہونا بھی شامل ہیں۔

یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ نے تیز ترین معلومات فراہم کرنے کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی ذخائر جو پہلے کبھی لائبریریوں میں ہوا کرتے تھے، اب سرچ انجن کے ذریعے ان تک رسائی بہت آسانی سے ہوجاتی ہے لیکن معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ اس سے متفق نظر نہیں آتے۔ ان کے مطابق یورپ میں کمپیوٹر ہم سے پچاس سال پہلے متعارف ہوگیا تھا اس کے باوجود وہاں آج بھی کتاب پڑھنے کا رجحان اسی طرح موجود ہے۔ ان کے مطابق اگر حکومت کتاب کابزنس کرنے والوں و کاروبار کے لیے سستی زمین اور سبسڈی دینے جیسی مراعات کا اعلان کرے تو صورتحال بہت بدل سکتی ہے۔

کتاب سے دور ہونے کی ایک وجہ اسکول اور کالج کی سطح پر طالب علموں کو نصابی کتب کے علاوہ ادب اور شخصیت سازی پر مدد دینے والی کتابوں کے مطالعے پر مائل نہ کرنا بھی ہے۔

بڑے ادیبوں کی رائے میں ملک میں فوڈ اسٹریٹ کے ساتھ ساتھ اگر بک اسٹریٹس بھی بنائی جائیں تو کتاب سے قاری کا رشتہ ایک بار پھر استوارکیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ آج بھی اچھی کتابوں کے متلاشی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ صدر میں اتوار والے دن ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے علاقے میں پرانی کتابوں کا جو بازار لگتا ہے اس میں خریداروں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔

اردو زبان کے معروف نقاد اور ادیب ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے اس بارے میں یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھنے، سننے کا رواج دیکھ کے مقابلے میں کم ہوگیا ہے۔

لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہو ان کے خیال میں اردو ادب اب بھی پڑھا جارہاہے لیکن وہ عام آدمی کے ہاتھ سے اس لیے نکل گیا ہے کہ کمپیوٹر کے اس نئے دور میں اس کی دلچسپیاں بدل گئی ہیں۔

کتاب اور ادب سے دوری کا ایک سبب ڈاکٹر جمیل جالبی کی نظر میں یہ بھی ہے کہ شاید ادب اب بے مقصدیت کا شکار ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے میں کتاب معیاری ہو یا غیر معیاری دونوں صورتوں میں اس کی تشہیر بہت ضروری ہے۔

نئے دور کے نئے تقاضے ہیں اور اسی لیے اب تشہیر کے انداز بھی بدل گئے ہیں اور اب ہمارے شاعر اور ادیب کتاب کے ساتھ آڈیو سی ڈی بھی رکھنے لگے ہیں۔ جس میں قارئین ان کی شاعری یا نشر کے نمونوں سے خود ان ہی کی آواز میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں ایک اور سبب یہ ہے کہ کتاب چھاپنے والے یعنی پبلشرز خود ٹھیک ٹھاک پیسہ بنالیتے ہیں، لیکن وہ کتاب قاری تک پہنچانے میں اپنا فرض پوری طرح انجام نہیں دیتے یعنی کتاب کو ملک بھر کے ایک اسٹالز تک پہنچانے کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کرتے۔

لاہور کے ایک پبلشرکا کہنا ہے کہ ہمارے پبلشرکتاب کی مارکیٹنگ محض آٹھ نو بڑے بڑے شہروں تک محدود رکھتے ہیں اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر بھیجنا پسند نہیں کرتے۔ ادب کے تجزیہ کار کتابوں کے کم پڑھے جانے کی ایک اور وجہ ان کا مہنگا ہونا ہے جس کا سبب ان کے مطابق یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کاغذ پر ڈیوٹی زیادہ لگائی جاتی ہے جب کہ دوسری طرف بھارت میں ہر کتاب کا ایک سستا ایڈیشن بھی چھپتا ہے اور عام طبقے کی کتاب تک رسائی با آسانی ہوسکتی ہے۔

لیکن اردو زبان کی ترویج کے حکومتی ادارے مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ افتخار عارف اس سے متفق نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ عالمی سطح پر کاغذ کے نرخ کتنے بڑھ چکے ہیں۔

اردو کے معروف ادیب مختار مسعود نے اپنی کتاب آواز دوست میں ایک جگہ لکھا ہے کہ بیسویں صدی کی گزشتہ چار دہائیاں کتاب پڑھنے اور کتاب لکھنے کا زمانہ تھا اور اس دور میں بہت اچھی کتابیں لکھی گئیں اور نامور ادیب شاعر اور دانشور پیدا ہوئے لیکن انیس سو پچاس کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی مائیں شاید تاجر اور سیاست دان ہی پیدا کرتی رہیں۔

مختار مسعود کی یہ رائے اپنی جگہ لیکن آج بھی اگر معاشرے میں کتاب پڑھنے کا کلچر رائج کیا جائے، اُجاڑ لائبریریوں کو پھر سے آباد کیا جائے اور اچھا ادب تخلیق کیا جائے تو قاری اور کتاب کا رشتہ ایک بار پھر استوار کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔