کوبا شپاہی

نصرت جاوید  منگل 5 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں شاید دس سال کا تھا جب ایک دن ہمارے اسکول میں اچانک چھٹی کا اعلان کر دیا گیا۔ وجہ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ قریب ہی ایک دودھ دہی والے کی دوکان تھی جس کا مالک اور دو بیٹے قتل کر دیے گئے ہیں۔ ایک شخص جو چرس فروشی اور جوئے کے اڈے چلانے کی وجہ سے بڑا بدمعاش سمجھا جاتا تھا، ضمانت پر رہا ہو کر اس دکان پر ہتھیار بند ہوکر آیا تھا۔ اپنی پستول سے اس نے دن دہاڑے ان تینوں کو پہلے زخمی کیا اور پھر مضروبین کے سینوں پر سوار ہو کر اپنے خنجر سے جنونی انداز میں انھیں مار دینے کے بعد للکارے مارتا وہاں سے فرار ہو گیا۔ اس واقعے نے اطراف کی تمام گلیوں میں دہشت پھیلا دی تھی اور بچوں کو گھر بھیج دیا گیا تا کہ ان کے گھر والے پریشان نہ ہوں۔

میں ان دنوں کافی بزدل ہوا کرتا تھا۔ میرے ساتھ کے کئی بچے جائے وقوعہ پر جانا چاہتے تھے۔ میں ان کی نظر سے بچ کر دھڑکتے دل کے ساتھ گھر بھاگ گیا۔ تھوڑے دن بعد پتہ چلا کہ اس نامی گرامی بدمعاش نے دودھ دہی بیچنے والوں کو پولیس کا ’’مخبر‘‘ ہونے کے شبے میں اس وحشیانہ انداز میں قتل کیا تھا۔ شاید اس واقعے کی دہشت سے گھبرا کر میرا تمام تجسس اب یہ جاننے پر مبذول ہو گیا کہ مخبر کیا ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ پتہ یہ چلا کہ یہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو ویسے تو گلی کے کسی کونے میں جوتے مرمت کرتا یا چھوٹی موٹی دکان چلاتا ہے۔

مگر اس کا اصل کام یہ پتہ چلانا ہوتا ہے کہ اس کے محلے میں کون کیا کرتا ہے۔ وہاں رہنے والوں کی کن کن سے اور کہاں کہاں رشتے داریاں اور دوستیاں ہیں اور وہ سب کیا کرتے ہیں۔ وقتاََ فوقتاََ یہ ساری تفصیلات علاقے کے تھانے یا پھر سنا ہے پولیس کی کوئی کرائمز ڈیپارٹمنٹ ہوا کرتی تھی ان تک پہنچا دی جاتی تھیں۔ مخبر کا اصل کام جان کر میں چوکنا ہو گیا۔ جہاں بھی کوئی موچی، نائی یا دودھ دہی والا نظر آتا، میں اپنے طور پر اندازہ لگانے کی کوشش کرتا کہ اس کا تعلق اس قماش سے ہے یا نہیں۔ مگر ہمیشہ قطعی فیصلہ کرنے میں ناکام رہا۔

پھر ایک اور شخص میری توجہ کا مرکز بنا۔ پورے محلے میں اسے ’’کوبا شپاہی‘‘ کہا کرتے تھے۔ یعقوب اس کا نام تھا اور اس کا تعلق پولیس سے بتایا جاتا تھا۔ مگر میں نے اسے کبھی وردی پہنے نہ دیکھا۔ وہ اکثر مجھے شلوار کُرتا پہنے لاہور کی پرانی گلیوں میں خواہ مخواہ آوارہ گردی کرتا نظر آتا۔ دیواروں پر چسپاں مختلف جلسوں کے اشتہارات کو غور سے پڑھتا اور ایک دو بار میں نے اسے ان اشتہاروں کو بڑی احتیاط سے دیوار سے اُتارنے کے بعد لپیٹ کر اپنے ہاتھوں میں رکھتے بھی دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک نوٹ بک ہوتی تھی۔

ویسی ہی جو ہمارے بچپن میں اسٹینوگرافرز ہمیشہ دفتروں میں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ ’’کوبا شپاہی‘‘ ایک کٹڑی میں رہتا تھا جس کے اندر کا سارا منظر میرے ایک دوست کے گھر کی چھت سے پوری طرح نظرآتا تھا۔ اپنے دوست کے ساتھ چھت پر کھڑے ہو کر میں نے بہت دفعہ اس کو بے کو گھنٹوں ایک تختی نما میز کو اپنی گود پر رکھ کر مسلسل لکھنے میں مصروف پایا۔ لکھتے ہوئے اس کا انہماک مجھے بہت متاثر کرتا۔ پھر میں نے اسی کوبے کو موچی دروازے میں ایک جلسے کے دوران دیکھا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ آغا شورش کاشمیری ایوب خان کی جیل سے رہا ہو کر اس جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔

’’اوئے کوبے لکھ لو اور ایوب خان تک یہ بات پہنچا دو کہ بھٹو کو رہا نہ کیا تو لوگ تمہارا تختہ کر دیں گے‘‘۔ انھوں نے للکارتے ہوئے کہا اور سارے مجمعہ کا رُخ اس طرف مڑ گیا جہاں کوبا بیٹھا تھا۔ میں نے بھی ادھر نظر ڈالی تو وہ غائب ہو چکا تھا۔ مگر مجھے اس کے گھر کا پتہ تھا اور اب مجھ میں لوگوں سے سوال کرنے کی ہمت پیدا ہو چکی تھی۔ میں اس سے ملا اور اس نے بڑی اکتاہٹ اور رعونت سے مجھے سمجھایا کہ وہ پولیس کی اسپیشل برانچ میں کام کرتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ ’’جلسوںکے ذریعے شر پھیلانے والے مولویوں اور سیاستدانوں پر کڑی نظر رکھے اور ان کے بارے میں سب کچھ حکومت کو بتائے تا کہ وہ حالات بگڑنے سے بہت پہلے ان کا کوئی بندوبست کر سکے‘‘۔

’’کوبے شپاہوں‘‘ کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ایوب خان تو بچ نہ پائے۔ مگر ایک رپورٹر بن جانے کے بعد میں نے جب بھی کسی علاقے میں ہونے والی کسی واردات یا سیاسی ہنگاموں کے بارے میں حقائق جاننا چاہے تو مجھے سب سے زیادہ معلومات ان لوگوں کے ذریعے ملیں جو اپنے اپنے علاقوں کے ’’کوبے شپاہی‘‘ ہوا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ صحافی اور سیاستدان ان ’’کوبوں‘‘ کا ذکر کرنا چھوڑ گئے۔ 1990 کی دہائی سے ذکر ہوتا ہے تو بس آئی ایس آئی کا یا پھر سی آئی اے، را اور موساد وغیرہ۔ ٹیلی وژن کے پھیلائو کے بعد تو رویہ یہ ہو گیا ہے کہ کراچی میں حالات بگڑیں تو ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے نمایندوں کو لے کر سیاپا شروع کر دو۔

یہ سیاپا ضروری ہے کیونکہ امن و امان حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس میں بیٹھے لوگ عام انسانوں کی بے جا ہلاکتوں کے بہت سارے حوالوں سے برابر کے ذمے دار ہیں۔ مگر ہم صحافیوں میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اپنے گزشتہ پانچ دس سال صرف اس موضوع پر تحقیق کرنے میں لگا دیے کہ حکومتوں میں بیٹھے لوگوں کے پاس امن عامہ کو یقینی بنانے کے حوالے سے معلومات اکٹھا کرنے کے کیا ذرایع ہیں۔ ان کو بہتر بنانے کے لیے ان لوگوں نے جنھیں ہم نے 2008ء میں ووٹ دے کر حکومتوں میں بٹھایا تھا کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ چونکہ ہم نے یہ سوالات نہیں اٹھائے اسی لیے ہمارے سیاستدان اس ضمن میں لاتعلق ہی رہے۔

ویسے بھی آج کل انھیں ایک بہانہ ملا ہوا ہے۔ جب بھی ان کی توجہ پاکستان میں دن بدن بڑھتی دہشت گردی کی طرف دلائو تو لمبا چوڑا بھاشن فرما دیں گے۔ اس بھاشن کے مطابق ایٹمی قوت بن جانے کے بعد پاکستان عالمی طاقتوں کو پریشان کر بیٹھا ہے۔ وہ یہاں لسانی اور فرقہ وارانہ تفریق پھیلا کر اسے کمزور کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم افغانستان کے ہمسائیے ہیں اور وہاں امریکی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھاشن دیتے ہوئے ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ حکومتوں کا کام حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرنا نہیں، ان پر قابو پانا ہوتا ہے اور اس کام میں جنرل مشرف کے بعد آنے والی حکومت بھی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کے تحفظ کا بندوبست کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ پتہ نہیں آج کوئی ’’کوبا شپاہی‘‘ بھی کہیں گھوم رہا ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔