سیاست کے بازار میں نفرت کی دکانیں

زاہدہ حنا  بدھ 8 نومبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

شمالی کوریا اور امریکی صدور کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دونوں سیر پر سوا سیر ہیں۔ ہر دوسرے دن ایک دوسرے پر ایٹمی حملے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایسے زمانے میں جب نوبیل امن انعام کمیٹی کی طرف سے اس برس کا امن انعام ایک غیر معروف تنظیم ’’International Campaign to Abolish Nuclear Weapons ‘‘ کو دینے کا اعلان کیا گیا تو عمومی طور سے حیرت کا اظہار کیا گیا لیکن وہ لوگ جو دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں انھیں مسرت ہوئی۔

یہ تنظیم جو ICAN کے مختصر نام سے معروف ہے، 100 قوموں میں نچلی سطح پر کام کرنے والی 400 سے زیادہ تنظیموں کا اتحاد و اشتراک ہے۔ اب سے دس برس پہلے اس تنظیم نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ظہور کیا ۔ یہ وہی شہر ہے جہاں کے ولی عہد کو قتل کیے جانے کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تھا۔ پہلی جنگ عظیم نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کو نگل لیا اور سیکڑوں شہروں اور بستیوں کو تاراج کیا، اسی کے چند برس بعد دوسری جنگ عظیم یورپ اور ایشیا کے رہنے والوں پر ایک مہیب بلا کی طرح نازل ہوئی اور کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو تہس نہس کرکے رخصت ہوئی۔

یہ دونوں عظیم جنگیں یورپ کو اپنی بنیادوںسے ہلاگئیں۔ اس پر سے مستزاد ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکا کی جانب سے ہونے والی ایٹمی بمباری تھی۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کے بارے میں متعدد دانشور، ادیب، سماجی ترقی سے سروکار رکھنے والے اور سیاستدان سر جوڑکر بیٹھے اور انھوں نے ہر ہر قدم پر دنیا میں امن کے نفاذ کی پیروی کی۔ ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جو دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے سینہ سپر ہوگئیں اور اسی وقت سے بعض تنظیموں کو بھی نوبیل امن انعام سے سرفراز کیا گیا۔

2017 میں ICAN کو نوبیل امن انعام ملا اور 1957 میں یہ انعام جوہری ہتھیاروں اور جنگی جنون کے خلاف نہایت سرگرم دانشور اور سیاستدان لیسٹر پیرسن کو ملا تھا جو کینیڈا کے شہری تھے اور جنہوں نے اس محاذ پر بے پناہ سر گرمی دکھائی تھی۔ انھوں نے بجا طور پر کہا تھا۔

’’ہمارے زمانے میں ناکامی کی یا شدید غلطی کی سزا پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ بنی نوع انسان کے لیے اب مزید غلطی کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔‘‘

ایک خوش امید انسان کے طور پر ہمیشہ ان کا یہ موقف رہا کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ موت اور تباہی کے دیے ہوئے ہر چیلنج کے مقابلے میں ہمیشہ آزاد لوگوں ہی کی طرف سے جواب آیا ہے کہ ’’یہ ہر گز نہیں ہوگا‘‘ایسے جوابات سے انسان نے نہ صرف خود کو بچالیا ہے، بلکہ اپنا مستقبل بھی یقینی بنالیا ہے۔‘‘

ان کی اور دوسرے بہت سے خوش اُمیدوں کی کاوشوں اور امن سے وابستہ ان لوگوں کے خوابوں کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے دنیا خطرناک ترین جگہ ہوگئی ہے۔ ان خطرات میں ہندوستان، پاکستان، ایران اور شمالی کوریا اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ ایٹمی تباہی کے نتائج سے آگاہ سائنس دان اور ادیب و دانشور ان دنوں امریکی صدر کے ان بیانات سے خوفزدہ ہیں جس میں انھوں نے ایک نہیں کئی بار دنیا کو یہ ’خوش خبری‘ دی ہے کہ وہ شمالی کوریا کی ’سرکشی‘ کا جواب ایٹمی ہتھیاروں سے دیں گے اور اس ملک کے تمام آباد شہروں کو امریکی ایٹمی اسلحے سے برباد کردیں گے، صفحہ ٔ  ہستی سے مٹادیں گے۔ متعدد امریکی سائنس دانوں اور دانشوروں کا خیال ہے کہ ایسے بیانات عقل سے ماورا شخص ہی دے سکتا ہے۔ دوسری طرف شمالی کوریا کے صدر ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار ان کے ملک و قوم کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔

ایک ایسے زمانے میں ICAN ایسی تنظیم کے لیے نوبیل امن انعام کا اعلان گہری معنویت رکھتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ امریکی صدر کو انتباہ ہے کہ وہ شمالی کوریا سے نفرت کو اپنی حدود میں رکھیں۔ شمالی کوریا پر ہونے والا معمولی سے معمولی ایٹمی حملہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یہ کرئہ ارض جوہری راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔

پیرسن دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے عینی شاہد تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری زمانے میں وہ لندن میں تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: ’’یہ آگ اور موت کی ایک لرزہ خیز رات کے بعد کی ایک اداس صبح کی بات ہے۔ میں رات کی بمباری سے سلگتے ہوئے کھنڈر گھروں کے درمیان سے گزر رہا تھا۔ ایک دن پہلے یہاں سرخ اینٹوں سے بنے نفیس، ستھرے اور عام درجے کے مکانوں کی قطار تھی جن میں مزدور خاندان بستے تھے ۔ اب یہاں صرف ملبے کے ڈھیر تھے، سوائے ایک عمارت کے جس کی سامنے کی دیوار باقی رہ گئی تھی، جو شاید کسی قسم کی کمیونٹی کلب کا حصہ تھی۔ اس دیوار پر ایک کتبہ لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’’1914-1918 کی عالمی جنگ کے دوران Alice Street کے باسیوں کی مقدس یاد میں، جنہوں نے امن کے لیے جان دی۔‘‘ آج Alice Street کے ان لوگوں کے بچے اور پوتے ایک بار پھر 1939-1945 کی زیادہ بڑی جنگ میں قربان ہوگئے ہیں۔ امن کے لیے؟ اکثر ایسا بھی وقت آتا ہے جب ایسا معلوم نہیں ہوتا۔‘‘

اس پس منظر میں دیکھیے تو آج ICAN کی سرگرمیاں امن عالم کے حوالے سے کہیں زیادہ متعلق محسوس ہوتی ہیں۔ دنیا میں لاکھوں ایسے افراد ہیں جو دل و جان سے امن قائم کرنے او ربہ طور خاص جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے بارے میں پُر جوش نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کا امن کے لیے بات کرنا اور پھر ہمارا یہ دیکھنا کہ دمشق، موصل، رقہ اور دوسرے متعدد شہر راکھ کا ڈھیر ہوچکے ہیں، عراق، لیبیا اور شام سے ترکِ وطن کرنے والے لاکھوں لوگ جس ابتلا سے گزر رہے ہیں، کاش جنگ سے محبت کرنے والوں کو ایک دن وہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جائے جس سے دوسرے لاکھوں کروڑوں دو چار ہیں۔

پچھلے دنوں ICAN نے اقوام متحدہ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے ایک سمجھوتے (Treaty) کو اختیار کرنے کے لیے دنیا بھر میں زبردست مہم چلائی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب تک 122 ملک اس سمجھوتے پر دستخط کرچکے ہیں لیکن اس سمجھوتے پر ایسے کسی بھی ملک نے دستخط نہیں کیے جو اپنے اسلحہ خانوں میں جوہری ہتھیار رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک بے شمار جوہری ہتھیار تلف کیے جاچکے ہیں۔ 1986 میں یہ 64,000 تھے اور اب 2017 میں ان کی تعداد بہت کم ہوئی ہے اس وقت بھی 9000 جوہری ہتھیار دنیا کے مختلف اسلحہ خانوں میں موجود ہیں۔

ICAN کے ایک اہل کار نے اس انعام کے اعلان کے بعد کہا کہ دنیا کے بعض حکمرانوں کے درمیان جو لفظی گولہ باری ہورہی ہے، اس سے ہم سب خوفزدہ ہیں۔ یہ دھمکیاں کسی وقت بھی حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں اور زمین جو ہماری ماں اور ہماری اولین اور آخری پناہ گاہ ہے، اس کی بربادی ہم سب کے لیے ایک ایسا سانحہ ہوگا جس پر رونے والے بھی نہیں رہیں گے۔ اس لیے کہ ہم سب ان ہیبت ناک موت سے دوچار ہوچکے ہوں گے۔ پیرسن کا بجا طور پر کہنا ہے کہ ’’پہلے کے مقابلے میں آج، مسلسل افلاس اور پریشانیاں گہری اور اہم وجوہ بن گئی ہیں۔ بین الاقوامی تناؤ کے ان حالات کی جو جنگ کو جنم دیتی ہیں۔ دوسری طرف، اگر اُن نئی اور تعمیری طاقتوں کو جو آج انسانوں اور علاقوں میں مصروف بہ عمل ہیں اور چند برس قبل بے حرکت اور مغلوب تھیں، تعاون اور پُر امن ترقیات کی طرف موڑا جائے، تو یہ طاقتیں بنی نوع انسان کو جنگ کے خوف سے دور رکھ سکتی ہیں۔

تاہم،دنیا میں امن کے مستقل اور پائیدار مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں ان عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے جو نفرت اور جنون کی سوداگری کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اپنے معاشی، سیاسی اور نظریاتی مفادات کے لیے جنگ، تصادم، تشدد اور نفرت کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مذاہب اور نظریات خواہ کچھ بھی ہوں انھیں اسلحہ ساز اور کئی تجارت کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں کی حمایت حاصل ہے کیونکہ نفرت کی سیاست جنگ اور تشدد کو جنم اور اسلحے کی تجارت کو فروغ دیتی ہے۔

دنیا کو جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں سے محفوظ کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ ہر ملک کے دانشور، صحافی اور سیاستدان ایسے عناصر کے خلاف مزاحمت کریں جو سیاست کے بازار میں نفرتوں کی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ یہ دکانیں ختم ہوں گی تو دنیا کو جنگ سے نجات مل پائے گی۔ ورنہ ہر سال امن کا انعام کسی فرد یا تنظیم کو ملتا رہے گا اور جنگ و جدل کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔