نسبت کی عظمت و اہمیت

سردار قریشی  بدھ 8 نومبر 2017

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی امامت فرما رہے تھے، سلام پھیرنے کے بعد اپنے مقتدیوں (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے دریافت فرمایا: تم میں سے کون ہے جس کی کوتاہی کا اثر میری نماز پر پڑا؟ معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی نے عجلت میں صحیح طریقے سے وضو نہیں کیا تھا۔

یوں تو نماز ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس کی اہمیت وافادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا مگر اس واقعے سے اس نمازکی اہمیت وعظمت کا پتہ چلتا ہے جس کی نسبت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھی۔ مساجد جو اللہ کے گھر ہیں، انھی اینٹوں سے تعمیر کی جاتی ہیں جن سے دوسری عمارتیں بنتی ہیں مگر ان عمارتوں کی طرح آپ مساجد میں جوتوں سمیت داخل نہیں ہوسکتے، اللہ سبحانہ کے ساتھ ان کی نسبت ہی ہے جس کی وجہ سے ہم ان کے فرش پر پیشانیاں ٹیک کر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

اسی طرح قرآنِ مجید اللہ جل شانہ کی نازل فرمائی ہوئی مقدس کتاب ہے جسے بغیر وضو چھونے تک کی اجازت نہیں جب کہ وہ اسی کاغذ پر طبع شدہ ہوتی ہے جس پر دوسری عام کتب چھاپی جاتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ کلام پاک کا تقدس کاغذ کی کوالٹی اور طباعت کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے نہیں بلکہ خالقِ کائنات سے اس کی نسبت کی وجہ سے ہے جو ہم سے اسے اٹھاتے، تلاوت کرتے اور بند کرکے رکھتے وقت چومنے، آنکھوں سے لگانے، ان کے احترام کا خیال رکھنے اور حتی المقدور اس کی بے ادبی سے بچنے کا تقاضا کرتی ہے۔

خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تاریخِ اسلام کا سنہری دور تھا جس کے عدل و انصاف کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن نسبت کو اس میں بھی دوسری باتوں پر فوقیت دی جاتی تھی اور مقدم خیال کیا جاتا تھا۔ عہدِ فاروقی کا وہ واقعہ کون فراموش کرسکتا ہے جب تنخواہیں مقررکرتے وقت آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تنخواہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی تنخواہ سے کم مقررکی، اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ جانِ پدر، تمہاری تنخواہ تو کم ہی مقرر ہونی تھی کہ تمہاری نسبت مجھ سے ہے جب کہ زید رضی اللہ عنہ کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہ تم سے زیادہ مقرر کی گئی ہے۔ گویا کسی بھی معاملے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت یا کسی چیز کا کوئی معیار طے کرتے سمے اس کی نسبت کا خیال رکھنا عدل و انصاف کے اصولوں کے نہ تو خلاف ہے نہ ہی اس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہے۔ کسی فریق کے ساتھ زیادتی ہونے کا احتمال تو دورکی بات اس پر کسی کو بیجا نوازنے یا اقربا پروری کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

عظیم المرتبت محدث اور حکیم ترمذی نہایت خوبصورت اور وجیہ جوان ہوا کرتے تھے، ایک روز حسب معمول اپنے مطب میں تشریف فرما تھے کہ ایک باپردہ عورت مریضہ بن کر آئی اور انھیں تنہا پاکر دعوتِ گناہ دیتے ہوئے بولی کہ وہ نہ صرف جوان بلکہ حد درجہ حسین بھی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ اس کی خواہش پوری کردیں۔ حکیم ترمذی اس کی بات سن کر زاروقطار رونے لگے، ان کی یہ حالت دیکھ کر وہ عورت گھبرا گئی اور الٹے پاؤں لوٹ گئی۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا، دھوپ چھاؤں کی طرح شب و روز کے تغیر نے حکیم ترمذی کو بوڑھا کردیا۔

ایک دن معمول کے مطابق مطب میں بیٹھے تھے کہ پھر اس واقعے کو یاد کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، دل میں خیال آیا کاش تب اس عورت کی خواہش پوری کردی ہوتی اور بعد میں توبہ کرکے اللہ سے، جو غفور الرحیم ہے، اپنے گناہ کی معافی مانگ لیتا۔ رات کو سوئے تو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی جو فرما رہے تھے کہ ترمذی، تو اس وقت گناہ کا مرتکب توکیا ہوتا اس کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا تھا کیونکہ تیرا وہ زمانہ میرے زمانے سے قریب تھا یعنی اس کو مجھ سے نسبت تھی، اور آج تیرے دل میں گناہ کرنے کا خیال اس لیے آیا اور اس پر پچھتاوا بھی ہوا کہ یہ زمانہ میرے زمانے سے بہت دور ہے اور اسے مجھ سے کوئی نسبت نہیں۔

حضرت جنید بغدادی جنھیں بطور ولی اللہ اور بزرگانِ دین میں سے نمایاں مقام و مرتبے پر فائز اللہ کے ایک برگزیدہ بندے کی حیثیت سے ہم سب نہایت عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں، بادشاہ وقت کے دربار سے وابستہ شاہی پہلوان تھے، بڑے سے بڑا پہلوان بھی انھیں ہرانے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔ ان کے ولی اللہ بننے کی کہانی بھی بیحد دلچسپ ہے۔ بادشاہ کو ان کی کُشتی کا مقابلہ دیکھنے کا شوق چرایا تو اس نے منادی کروائی کہ جو کوئی شاہی پہلوان جنید کو ہرا دے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔

شاہی اعلان سن کر ایک فاقہ زدہ کمزور و ناتواں شخص دربار میں حاضر ہوا اور شاہی پہلوان سے لڑنے کی خواہش ظاہر کی، بادشاہ نے اس کی حالت دیکھ کرکہا کیوں اپنی جان کے دشمن بنتے ہو، تمہارا ہمارے جنید سے بھلا کیا مقابلہ، جاؤ بھاگ جاؤ۔ مگر وہ شخص اپنی بات پر اڑا رہا کہ شاہی پہلوان سے مقابلہ کرکے اسے ہرائے گا، اس کی ضد دیکھ کر بادشاہ کو مجبوراً مقابلے کا اعلان کرنا پڑا، دن تاریخ اور وقت مقرر کیا گیا اور ایک خلقت مقابلہ دیکھنے پہنچی۔ بادشاہ کے جلوہ افروز ہوتے ہی پہلے شاہی پہلوان جنید اور پھر اس کو چیلینج کرنے والا کمزور و ناتواں شخص اکھاڑے میں اترے۔

مقابلہ شروع ہونے سے پہلے اس شخص نے موقعے پاکر جنید کے کان میں سرگوشی کی کہ وہ ایک غریب و مسکین آدمی ہے مگر اس کا تعلق سادات خانوادے سے ہے، وہ نہ تو پہلوان ہے نہ ہی اسے کشتی لڑنا آتا ہے، اس نے خود کو اور اپنے بچوں کو آئے دن کے فاقوں سے بچانے کے لیے اکھاڑے میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے، لہذا اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی نسبت کا لحاظ کرکے مقابلے میں اس سے ہارنے کی ذلت برداشت کرلے تو اس کے سارے دلدر دور ہوجائیں گے کیونکہ بادشاہ سے منہ مانگا انعام پاکر وہ اپنی غربت و افلاس مٹاکر خوشحال لوگوں کی صف میں شامل ہوجائے گا۔

شاہی پہلوان جنید کو اس کی معصوم خواہش سے زیادہ اس بات نے متاثر کیا کہ وہ آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھتا ہے اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اسے جتوا کر منہ مانگے انعام کا حقدار قرار دلوائے گا۔ مقابلہ شروع ہوا اور ایک دم شور مچا کہ شاہی پہلوان ہار گیا۔ بادشاہ نے بھی دیکھا کہ جنید زمین پر چت پڑا ہے اور وہ شخص اس کے سینے پر سوار ہے۔ وہ چیخا یہ نہیں ہوسکتا، اس کے حکم پر دوبارہ مقابلہ ہوا مگر اس بار بھی وہ شخص پہلے کی طرح فاتح اور انعام کا حقدار قرار پایا۔

جنید کو اکھاڑے میں ہار کی ذلت برداشت کرنے کے علاوہ بادشاہ کی لعنت و ملامت بھی سننا پڑی لیکن رات کو اس کی ساری کوفت اس وقت دور ہوگئی جب خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنید، تم نے اکھاڑے میں شکست مان کر اس شخص کی مجھ سے نسبت کی لاج رکھی، اللہ اس کے بدلے دنیا میں تمہاری عظمت و بزرگی کے ڈنکے بجوائے گا۔

آخر میں ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے جس سے آپ کو نسبت کی اہمیت و عظمت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ایک شخص کی بیوی اس قدر سرکش، خود سر اور نافرمان تھی کہ وہ اسے طلاق دینے میں بھی حق بجانب سمجھا جاتا، مگر اس نے اسے اللہ کی بندی جان کر معاف کردیا۔ حدیث میں ہے کہ کل قیامت کے دن اللہ جل شانہ اس سے فرمائیں گے کہ تو نے اپنی بیوی کو میری بندی جان کر معاف کیا تھا، جا میں تجھے اپنا بندہ جان کر معاف کرتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔