شرمین کے ٹویٹ کا دوسرا رخ

محمدعمر ہاشمی  بدھ 8 نومبر 2017
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم کسی ایشو کی حمایت ومخالفت میں متشدد ہوجاتے ہیں لیکن معاملے کی حساسیت کو نہیں پرکھتے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم کسی ایشو کی حمایت ومخالفت میں متشدد ہوجاتے ہیں لیکن معاملے کی حساسیت کو نہیں پرکھتے۔ (فوٹو: فائل)

کسی خاتون کو مرد کی طرف سے فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا کس حد تک ہراساں کرنے کا اقدام ہوسکتا ہے؟ یہ طے کرنا اتنا آسان نہیں۔ تاہم گزشتہ چند روز سے ایک ٹویٹ کرنے پر پاکستان کی دو بار آسکر انعام یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے پر سوشل میڈیا پر مرد حضرات نے جس قدر تنقید کی ہے اور ان کا مذاق اڑایا گیا ہے، اس پر شرمین ضرور ہراساں محسوس کررہی ہوں گی۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم کسی ایشو کی حمایت اورمخالفت میں شدت کی حد تک چلے جاتے ہیں جبکہ معاملے کی حساسیت کو کسی طور بھی پرکھا نہیں جاتا۔

چند روز میں شرمین عبید چنائے پر سوشل میڈیا میں کی جانے والی تنقید سے وہ اتنی متاثر ضرور ہوئی ہیں کہ انہوں نے اپنی ٹویٹ کے حق میں ایک بہت لمبا چوڑا بیان جاری کیا ہے جس سے ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ شاید جن حالات میں انہوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا وہ کسی حد تک اسی لائق تھے۔ ہم میں سے کوئی بھی ان کہ جگہ ہوتا تو شاید ایسے ہی ردعمل کا اظہار کرتا۔ یہاں پر میرا مقصد ان کے ٹویٹ کو درست ثابت کرنا نہیں لیکن صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے کے اجتماعی طرز عمل میں خرابی کی نشاندہی کرنا ضرور ہے۔ تاہم شرمین نے بھی ردعمل کا اظہار کرنے میں الفاظ کا درست انتخاب نہ کیا جو معاشرتی طرز عمل کا عکاس محسوس ہوتا ہے، جس کا بعد میں انہوں نے اقرار بھی کیا۔

یاد رہے کہ چند روز قبل شرمین عبید چنائے نے ٹوئٹر اور فیس بک پر پوسٹ شیئر کی تھی جہاں انہوں نے اپنی بہن کے ساتھ کراچی کے معروف آغا خان ہسپتال میں ہونے والے واقعے کا ذکر کیا تھا۔ شرمین کے مطابق ان کی بہن اسپتال میں اپنے طبی معائنے کےلیے گئی تھیں جہاں ان کے ڈاکٹر نے بعد میں انہیں فیس بک دوست بننے کی پیشکش بھیج دی۔ ٹوئٹر پر جاری بیان میں شرمین عبید نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے اس موضوع پر بحث خواتین کے تحفظ، غیر اخلاقی اور بے لگام انداز میں ہراساں کرنے کی حرکات سے بہت دور چلی گئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غصے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ان سے کچھ لوگ مایوس ہوئے ہیں اور میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ میں نے غصے اور جوش میں غلط الفاظ چنے۔ میرے الفاظ اور جذبات کی وجہ سے بات اصل معاملے سے دور چلی گئی ہے۔

بیان میں انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے واضح کردوں کہ میرے ٹویٹ میں ’غلط فیملی کی غلط خواتین‘ کے الفاظ کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ طاقت یا استحقاق کی جانب اشارہ کیا جائے۔ میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ میری فیملی میں خواتین حوصلہ مند ہیں اور اپنے حقوق کےلیے ہمیشہ کھڑی ہوتی ہیں اور ہوں گی۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس کیس میں ’ایک اجنبی ڈاکٹر جو ایمرجنسی روم میں کام کر رہا تھا، اس سے طبی معاملے کے علاوہ کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔ اسے وارڈ میں ایک انتہائی ذاتی طبی معائنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اس معائنے کے بعد اس نے مریض کو سوشل میڈیا پر ڈھونڈا، اس کی تصاویر پر رائے دی اور فیس بک پر اس سے دوستی کرنے کی کوشش بھی کی۔‘ ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہسپتال کی آزادانہ تفتیش کا نتیجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا ’ڈاکٹر کی کوشش کو منظرِ عام پر لانے کے میرے طریقے سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، شعبہِ طب اور سوشل میڈیا کی حدود پر بحث کر سکتے ہیں، اور میرے انداز اور لہجے پر سوال اٹھا سکتے ہیں مگر حقیقت میں جو ہوا وہ اعتماد کو ٹھیس پہچانا، اور پیشہ ورانہ ضوابط کی سنگین خلاف ورزی تھی جس کے نتیجے میں ایک خاتون کو ہراساں کئے جانے کا احساس ہوا۔ اور اس بات پر میں خاموش نہیں رہوں گی۔‘

اس ساری بات کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ شرمین عبید چنائے کا ردعمل فطری تھا اور اگر انتہائی ذاتی نوعیت کا معائنہ کرنے والا ڈاکٹر دوسرے ہی روز تصاویر پر کمنٹ کرے اور دوستی کرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو غصہ آنا فطری ہے۔ تاہم اس کا اظہار زیادہ بہتر طریقے سے کیا جا سکتا تھا اور کیا جانا چاہیے تھا۔ شرمین جیسی خواتین کو جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا علم بلند کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، اس طرح کے معاملے میں بہت محتاط ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ سوسائٹی مثبت انداز میں اصلاح پائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمدعمر ہاشمی

محمدعمر ہاشمی

لکھاری پندرہ سال سے میڈیا سے وابستہ ہیں اور روزنامہ جناح، روزنامہ نئی بات اور کیپٹل ٹی وی سمیت کئی اداروں میں کام کرچکے ہیں جبکہ خاصے عرصے سے بلاگ بھی لکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔