سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 9 نومبر 2017
 نواز شریف کی نااہلی کا سوال ملکی سیاسی دھارے کی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ فوٹو: فائل

نواز شریف کی نااہلی کا سوال ملکی سیاسی دھارے کی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور اسحاق ڈار کی نظرثانی درخواستوں کو مسترد کیے جانے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، جس میں قرار دیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے منتخب عہدیدار کے جھوٹ پر آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں نہ صرف نظر کیا جاسکتا ہے، سابق وزیراعظم نے غلط بیانی کی اور جان بوجھ کر 6 سال کی تنخواہ جو ان کا اثاثہ تھی، کاغذات نامزدگی میں چھپائی اور عدالت کے سوالات کا جواب دینے میں راست بازی و دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا، مواقع ملنے کے باوجود سچ بیان نہیں کیا بلکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی، یہاں تک کہ عدالت کو بھی بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ 23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے تحریر کیا۔

دریں اثنا اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف نیب کی جانب سے دائر تین ریفرنسز کی سماعت کی۔ نوازشریف کو روسٹرم پر بلاکر فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی، عدالت نے نواز شریف پر لندن فلیٹس، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی۔ سابق وزیراعظم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فیئر ٹرائل کے حق سے محروم کیا گیا اور میرے بنیادی حقوق سے انکار کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کارروائی سیاسی بنیادوں پر کی گئی، بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں، ٹرائل میں اپنا دفاع کروں گا۔

پانامہ کیس میں عدالت عظمیٰ کا تفصیلی فیصلہ درحقیقت سابق وزیراعظم نواز شریف کے صبر، سیاسی بصیرت، تدبر اور مستقبل شناسی کا اعصاب شکن امتحان ہے جس میں سرخرو ہونے کے لیے تاریخ ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی، عدالتی وقار، حصول انصاف کی مسلسل جدوجہد پر یقین کامل سے مشروط ہے، عدلیہ نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں ایک مسلم حکمراں کی دیانتداری، قول وفعل میں ہم آہنگی کے حوالہ سے کہا کہ اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو شک اور غیر یقینی کے پردوں میں چھپائے، بین السطور عدالت نے طرز حکمرانی میں مضمر انتظامی عہدہ پر مامور شخص کی ’’رہبری‘‘ کا سوال اٹھایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شریف خاندان، مسلم لیگ (ن) کی قیادت، ان کے اکابرین اور ووٹرز تک پہنچنے والے عدالتی پیغام کے بعد سیاست دوراں کیا کروٹ لیتی ہے اور ن لیگ کی آیندہ سیاسی جدوجہد سیاسی حکمت عملی کے اعتبار سے ملکی صورتحال، خطے میں ابھرنے والے خطرات، مادر وطن کو درپیش عالمی اور داخلی سیاسی چیلنجز سے کس طرح نمٹنے کا روڈ میپ قوم اور پارٹی کیڈر کے سامنے رکھتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھاری مینڈیٹ کی حامل اور تین بار وزیراعظم بننے والے کسی سیاسی قائد اور اس کی جماعت اور فالوورز کو اس مشکل آزمائش کا کبھی سامنا ہوا ہو، اس ملک میں وزرائے اعظم قتل ہوئے، کسی کو سرِ دار لٹکایا گیا، عہدے سے سبکدوش ہوئے، ان کے خلاف عدالتی کارروائی ہوئی، مگر نواز شریف کی نااہلی کا سوال ملکی سیاسی دھارے کی تبدیلی کا عندیہ ہے، جو صائب ترین مشورہ نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت کو دیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ عدالتی پروسیس اور فیصلہ پر ردعمل کی پرشور سیاست نہ ہو، شریف خاندان قانونی ریلیف کے حصول اور فیئر ٹرائل سے مایوس نہ ہو، ابھی اپیل در اپیل کے کئی مراحل ہیں، احتساب عدالت میں کیسز چل رہے ہیں، سپریم کورٹ نے 6 ماہ کی مدت بھی دی ہے۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ نواز شریف نے عدالتوں کا سامنا کرنے اور ان سے سرخرو ہونے کی بات کی ہے، لہٰذا سسٹم کے اندر رہتے ہوئے انصاف حاصل کرنے کی آئینی جستجو کسی بھی سیاسی قائد، جمہوری سیاسی اور عوامی جماعت کو اداروں سے دانستہ تصادم، جارحانہ مہم جوئی اور انارکزم کی بارودی سرنگ بچھانے پر مائل نہیں کرسکتی۔ ن لیگ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اسے ایک طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہے، ن لیگ کو اس حقیقت کا زیادہ ادراک ہوگا، جب کہ مہذب قوموں نے ہمیشہ عدالتی وقار اور ان کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے، آئینی و قانونی اقدار کی پاسداری کی ہے۔ عدالتی فیصلہ سے ملکی سیاسی نظام یا وزارت عظمیٰ سرنڈر ہونے پر مجبور نہیں کی گئی، بس ایک حاکم کو سچ کہنے سے گریز کی سزا ملی۔ عدالتی فیصلہ اصل میں ’’ضرب کلیمی‘‘ ہے۔

سیاسی بساط لپیٹنے سے اس کا کوئی منفی پہلو نکالنا مناسب نہیں بلکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور شریف خاندان اپنے سیاسی دریا میں کسی جانب سے کوئی طوفان اٹھانے سے اجتناب کرے اور اس کولیٹرل ڈیمیج سے جو ملکی سلامتی، قومی یکجہتی، سیاسی انتشار یا عوام میں بددلی، مایوسی اور اضطراب کا باعث بنے، اس سے دور رہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی اہمیت اور حیثیت حکومتی شعبوں میں غیر متنازعہ انتظامی اہلیت، فرض شناسی، ایمانداری، مناسب تطہیر کی تلقین، بے لگام کرپشن کے خاتمہ کی تنبیہہ، اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کی تجدید کے عملی اظہار کی ضمانت سے متعلق ایک چارٹر کی ہے۔ ن لیگ قیادت 2018 کے انتخابات پر نظر رکھے، انتھک جمہوری اسپرٹ کے ساتھ کوشش کرے کہ عوامی عدالت اس کے درد کا کچھ درماں کرے۔ شریف خاندان اپنے داخلی اختلافات کو روکنے کے لیے پارٹی لیڈرز کے صائب مشوروں کو بھی اہمیت دے، اسی میں اس کی بقا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔