ایک نعمت

عبدالقادر حسن  جمعرات 9 نومبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پہاڑوں میدانوں ان کی پگڈنڈیوں پتھریلی اور عام و خاص گزرگاہوں کے نہ جانے کتنے فاصلے طے کر کے ایک پہاڑی گاؤں سے چلنے والا یہ مسافر ایک بار پھر ایک مشکل سفر طے کر کے لاہور پہنچا ہے، لاہور نے اسے یاد کیا ہے ورنہ اس کے شب و روز میں اتنی گرمی محسوس نہ ہوتی کہ لاہور ایک محبوب بھی بن گیا، اسی طرح لاہور بھی شاید مجھ سے اداس تھا یہ ایک دوسرا لاہور تھا جس کا ہر کوچہ اور ہر بازار بھی لاہور کے نام سے ہی مشہور تھا۔ میں نے جس جگہ کا بھی پوچھا یہی بتایا گیا کہ اپنے حافظے کو تازہ کرو یہ لاہور ہی ہے اور اس طرف کی گلی میں ہی تمہارا گھر تھا جو اب خاموش اور افسردہ ہے، ہمت ہے تو پہلے اسے آباد کرو شاید اس کے در و دیوار میں تمہاری کوئی یاد سوئی ہوئی ہو، آوازیں دیں تو جاگ اٹھیں اور تمہارا پرانا خاموش سویا ہوا لاہور بھی شاید جگ اٹھے اور تم پھر سے لاہوری بن جاؤ ماضی قریب کو یاد کر کے۔دراصل گاؤں کی زندگی بھی اب وہ پہلے والی نہیں رہی اس میں شہری زندگی کی ملاوٹ آگئی ہے لیکن یہ کسی حد تک گاؤں کے لوگوں نے اپنے آپ کو ان اجنبی ملاوٹوں سے بچا رکھا ہے ۔

جب کبھی گاؤں جانا ہوتا ہے تو واپسی مشکل ہو جاتی ہے بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ گاؤں کے گلی کوچے پاؤں پکڑ لیتے ہیں وہ پاؤں جن سے ہم دونوں یعنی میں اور گاؤں والے نہ صرف یکساں مانوس ہیں بلکہ ایک دوسرے سے دوستی بھی ہے، گلیوں کی مٹی میں مدتوں تک پاؤں پھسلتے اور بھیگتے رہے اب ان کا لمس کس طرح چھوٹ سکتا ہے، وہی گلیاں اور وہ پاؤں کو چبھنے والے پتھر کوئی نئی بات نہیں کہ میرے پاؤں اسے محسوس کرتے یا میرا شکریہ ادا کرتے کہ مدتوں بعد ملاقات ہوئی ہے ۔ میں جب تک دیہات میں رہا میرے دیہات کے لوگوں نے میرے ساتھ شہری زندگی والا برتاؤ کرنے کی کوشش کی تا کہ میں دیہات سے بددل نہ ہو جاؤں جہاں میں کبھی  پیدا ہوا تھا جو اب بہت بدل چکے ہیں اور ان میںشہر ی زندگی کی کچھ خرابیاں بھی پیدا ہو گئی ہیں لیکن ان لوگوں کی اصل چونکہ ایک تھی اس لیے وہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہے لیکن ان کی زبانوں پر گلے شکوے بھی رہے۔

ایک صاحب کا تو پکا یہ پروگرام تھا کہ وہ شہر کی زندگی ترک کر کے اپنے گاؤں لوٹ جائے گا لیکن گاؤں کا ایک آدھ چکر لگانے اور ان لوگوں سے معاملات کرنے کے بعد اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور شہر میں ہی رہنے کو تر جیح دی۔ شدید خواہش کے باوجود پیدائشی اور پرانادیہاتی نہ بن سکا جب کہ اسے اپنی پیدائش کے گاؤں میں زندگی گزارنے کا بہت شوق تھا لیکن شہری زندگی کی آسودگی اور آسانی نے اس کو شہری بن جانے پر ہی آمادہ کر لیا ۔ اب وہ ایک نئی زندگی بسر کر رہا ہے اور فی الحال خوش ہے لیکن کب تک وہ شہری سہولتوں کا اسیر رہے گا کہ ہمارے حکمرانوں کی بد انتظامی نے اس خوبصورت ملک کا حشر نشر کر دیا ہے، اب بنیادی سہولتیں بھی ناپید ہو چکی ہیں یا ان کی فراہمی تعطل کا مسلسل شکار رہتی ہے، دعوؤں کے باوجود ایک بار پھر ہر طرف اندھیرا ہے کیونکہ بجلی کی روشنی نہیں ہے جس کی تلاش میں ہم گاؤں سے شہر آئے تھے ۔

ہماری بد انتظامی نے ان تمام سہولتوں کو ناپید کرنا شروع کر دیا ہے جن کا شمار بنیادی ضروریات میں ہوتا ہے مثلاً یہی بجلی کی روشنی  ؔ اب اسے ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر اور جدید زمانے کا رخ زیبا بھی اسی مصنوعی روشنی یعنی بجلی کا محتاج ہوتا ہے، یہ بجلی والوں کی مہربانی ہے کہ وہ اس زمینی نعمت کو زندہ رکھتے ہیں یا اسے بھی ایک تھکی ہوئی اونگھ کے حوالے کر کے خود آرام میں چلے جاتے ہیں۔نسبتاً خنک موسم میں بھی بجلی کی فراہمی کی صورتحال کچھ اچھی نہیں، ہر چند لمحوں بعد جھلک دکھا کر غائب ہو نے کی پرانی عادت اور روائت شروع ہو چکی ہے۔ بتایا یہ جا رہا ہے کہ دھند اور آلودگی کی وجہ سے کھمبوں پر لگے ہوئے آلات خراب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ ٹی وی پر میں نے دیکھا کہ کھمبوں پر موجود آلات کو پانی سے دھویا جا رہا ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ملک بھر میں کھمبوں کی تعداد کتنی ہے۔

قدرت نے انسانوں کو ایسے کئی ہنر عطا کیے ہیں کہ وہ ان کے نشے میں مست رہ سکتے ہیں اور مست بھی، ایسے کہ ایک دنیا کو بھی مست رکھ سکتے ہیں یہ سب قدرت کے تماشے ہیں کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کو اپنی دنیا میں مست رکھ سکتی ہے اور جب جی چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو اس مستی سے الگ بھی کر سکتے ہیں ۔ قدرت نے انسانوں کی سر مستی کے لیے کتنی ہی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں انسان ان نعمتوں کو اپنی پسند اور ضرورت کے لیے حسب توفیق استعمال کر سکتا ہے ان نعمتوں کا بھی شمار ممکن نہیں جو قدرت نے انسانوں کی تفریح کے لیے پیدا کر دی ہیں لیکن انھیں شمار کرنے سے بہتر ہے کہ انھیں صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور انسانوں کو ان سے زیادہ سے زیادہ نفع پہنچایا جائے اور خدا کی ان نعمتوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، یہ نعمتیں خدا نے انسانوںکے لیے بنائی ہیں ان کا استعمال جتنا زیادہ ہو گا دنیا کی رونق میں اتنا ہی اضافہ ہو گا لیکن بات ان نعمتوں کی دستیابی کی ہے جس کی تما م تر ذمے داری ریاست پر ہے،اب یہ کام ریاست کا ہے کہ وہ اللہ کی ان نعمتوں کو اپنے شہریوں تک پہنچانے کا بندوبست کیسے کر تی ہے یا بدستور آرام کرتی رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔