ابھی یا پھر کبھی نہیں

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 9 نومبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جب سے سیاسی اشرافیہ کے خلاف نیم دلانہ ہی سہی احتساب کا آغاز کیا گیا ہے، پوری اشرافیہ میں ایک تہلکہ مچا ہوا ہے احتساب سے بچنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں سب سے بڑا حربہ ’’عوامی طاقت‘‘ کا استعمال ہے۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ستر سال سے اس ملک پر اشرافیہ کے ٹولے نام اور چہرے بدل بدل کر حکومت کر رہے ہیں اور اس نیک کام کے لیے عوام کو استعمال کیا جا رہا ہے، کلچر کسی جمہوری ملک میں موجود نہیں۔

ہمارے سیاستدان بڑے وثوق سے یہ خوش خبری تو سناتے ہیں کہ ہم عوام کے منتخب لوگ ہیں، ہمیں ہمارے عہدوں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ انھیں انتخابات میں منتخب کرنے والے مشکل سے 30-35 فیصد لوگ ہوتے ہیں ان میں بھی دیہاڑی دار اور شخصیت پرستی کے شکار لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے ۔اس حقیقت کے باوجود انتخابات سیاسی جماعتوں کے منشور اور انتخابی وعدوں سے مشروط ہوتے ہیں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی یہ منطق بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے کہ ہمیں عوام کا مینڈیٹ ملا ہے اس لیے ہمیں 5 سال سے پہلے کوئی مائی کا لعل اقتدار سے نہیں ہٹا سکتا۔ یہ منطق ستر سالوں سے حکمران طبقہ استعمال کرتا آرہا ہے،  جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری ملکوں میں انتخابات جیتنے والی جماعت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے منشور اور انتخابی نعروں پر عملدرآمد کرکے عوامی مینڈیٹ کی شرط پوری کرے۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یک گہری سازش کے تحت ہمارے ملک کے عوام کو جاگیردارانہ روایات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شخصیت پرستی کا اسیر بنادیا گیا ہے۔ عوام کو شخصیت پرستی کے سحر میں اس طرح ملوث کردیا گیا ہے کہ عوام اہل سیاست اہل اقتدار کے کارناموں پر نظر ڈالنے کے بجائے ان کے طمطراق سے متاثر ہوکر زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ ہماری اشرافیہ کی اربوں کھربوں کی بے لگام کرپشن کے خلاف احتساب کا آغاز کیا گیا ہے اگرچہ  یہ احتساب اب تک بلا امتیاز اور بلاخوف نظر نہیں آرہا ہے اور اربوں کھربوں کی کرپشن کے ملزمان اگرچہ اس نرم احتساب سے خوفزدہ تو ہیں لیکن اس سے بچنے کے لیے انھوں نے کئی حربے استعمال کرنا شروع کردیے ہیں۔ سب سے پہلے یہ منطق پیش کی گئی کہ احتساب کا حق کسی ادارے کو نہیں صرف عوام کو ہے اور عوام انتخابات کے ذریعے حکمرانوں کا احتساب کرتے ہیں اس بے ایمانہ منطق کے حوالے سے احتسابی اداروں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی اٹھا دیا گیا ہے اور عدلیہ پر کھلے بندوں یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ عدلیہ احتساب نہیں کر رہی ہے بلکہ انتقام لے رہی ہے۔

ہر ملک میں عدلیہ ہی ایک ایسا ادارہ ہوتی ہے جس پر عوام اعتماد کرتے ہیں اور ہماری حکمران اشرافیہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ اگر عوام عدلیہ کے ساتھ ہو جائیں تو نہ صرف ان کے لوٹ مارکے راستے بند ہوجائیں گے بلکہ انھیں سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ احتساب کو انتقام وہ عمائدین کہہ رہے ہیں جن کی کرپشن کی داستانیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور اشرافیائی جرأت کا عالم یہ ہے کہ حکمران تو حکمران ان کی آل اولاد بھی دھڑلے سے احتساب کو انتقام کہتے ہوئے کھلم کھلا توہین عدالت کے جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں اب تک جو نظام حکومت متعارف ہوتے رہے ہیں ان میں جمہوری نظام بلاشبہ ایک نسبتاً ترقی یافتہ نظام کہلایا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ جمہوریت کی اس تعریف پر پورا اترے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔ ہماری 70 سالہ جمہوریت پر ایک نظر ڈالیں تو یہ شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک دن بھی وہ جمہوریت قائم نہ رہی جس میں حکومت عوام کی ہو عوام کے لیے ہو۔ بلاشبہ ہماری جمہوریت میں عوام کے ذریعے کی شرط پوری کی جاتی ہے وہ بھی اس بے ایمانی اور بددیانتی کے ساتھ کہ خود سیاسی پارٹیاں انتخابی بددیانتیوں کا الزام لگاتی ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ مڈل اور اپر مڈل کلاس اشرافیہ کی بداعمالیوں کو ہر قدم پر جمہوریت کی بالادستی کے نام پر سہارا دے رہی ہے۔ دور کوئی ہو بداعمال حکمران طبقے کی بداعمالیوں کا مڈل کلاس ہر سطح پر دفاع کرتی آرہی ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اہل قلم اہل دانش بھی آنکھ بند کرکے ’’جمہوریت بچاؤ‘‘ مہم کا حصہ بن رہے ہیں، کیا ہمارے جمہوریت کے عاشق حکمرانوں کی اربوں کی کرپشن ملک کے اندر ملک کے باہر اربوں ڈالر کی ان جائیدادوں سے لاعلم ہیں جس کی تفصیل میڈیا میں آرہی ہے کیا اس کرپٹ ترین اشرافیہ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ملک میں ایسی جمہوریت نافذ کرے گی جس کی تعریف خود جمہوریت کے مبلغین نے کی ہے جس ملک میں عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں جیسی ہو کیا اس ملک میں عوامی جمہوریت قائم ہوسکتی ہے؟

احتساب کا آغاز بلاشبہ خوش کن اور حوصلہ افزا ہے لیکن جن اداروں نے احتساب کا آغاز کیا ہے، وہ یقینا اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ جن کا احتساب کیا جا رہا ہے وہ کس قدرطاقتور ہیں اور وہ کس کس حوالے سے اس احتساب کو ناکام بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اب چونکہ احتساب کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے اورکئی خاندانوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہو رہی ہیں تو اس امکان کو نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ سیاسی حوالے سے ایک دوسرے کے مخالفین یہ خاندان اپنے آپ کو احتساب سے بچانے کے لیے ایک مرکز پر جمع ہوسکتے ہیں اور وہ مرکز جمہوریت ہوگا۔

جمہوریت کو بچانے کے نام پر یہ اشرافیائی طاقتیں ایسا طوفان اٹھاسکتی ہیں کہ احتسابی طاقتیں بھی گھبرا جائیں۔ اس جارحانہ مہم کا آغاز بڑی دیدہ دلیری بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کردیا گیا ہے اور سادہ لوح عوام بھی اس سرتاپا پرفریب مہم سے کنفیوژن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس نازک موقعے  پر ہمارے وہ اہل قلم وہ دانشور جو دانستہ یا نادانستہ جمہوریت کے سراب کے پیچھے چل رہے ہیں وہ اس حقیقت کا ادراک کریں کہ ستر سالوں سے جو جمہوریت ہمارے ملک میں جاری و ساری ہے وہ عوامی جمہوریت نہیں بلکہ اشرافیائی جمہوریت ہے جو اب کھلی بادشاہت میں بدل گئی ہے ۔

احتساب کو انتقام کا نام دے کر عوام کو گمراہ کرنے والے اگر اپنی مہم میں کامیاب ہوجائیں تو پھر ان کی طاقت کو لوگ چیلنج نہیں کرسکیں گے اور یہ طبقات اور شدت کے ساتھ لوٹ مار کا بازار گرم کردیں گے۔ احتسابی طاقتوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اب ’’ابھی یا پھر کبھی نہیں‘‘ کا مرحلہ آگیا ہے اور یہی مرحلہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔