سیاسی جماعتوں میں آمریت بھی ختم کریں

مزمل سہروردی  جمعرات 9 نومبر 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ملک میں جمہوریت کمزور ہے۔ اس کے مستقبل کے حوالہ سے خدشات موجود ہیں۔ حلقہ بندیوں کے حوالہ سے آئین سازی تعطل کا شکار ہے۔ سینیٹ انتخابات پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی جمہوریت کے تسلسل پر اتفاق رائے ہے۔ مجھے تو عجیب حیرانی ہے کہ وہ ادارے جن پر جمہوریت کو کمزور کرنے کا الزام ہے، جو جمہوریت مخالف سمجھے جاتے ہیں وہ جمہوریت کے محافظ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ نظام چلنا چاہیے جب کہ جن کو نظام چلانے کی بات کرنی چاہیے وہ نظام کو لپیٹنے کی خواہش کر رہے ہیں۔ ایسے میں جمہوریت زیادہ مضبوط لگ رہی ہے کیونکہ جمہوریت مخالف جمہوریت کے محافظ بن گئے ہیں اور محافظ دشمن بن گئے ہیں۔

کیا ایک نااہل شخص کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو سکتا ہے۔ یہ سوال اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جو بات سیاستدانوں کو پارلیمنٹ میں انصاف کے اصولوں کے تحت طے کر لینی چاہیے تھے وہ اب ادارے طے کریں گے۔ اور پھر ہم اداروں پر انگلیاں بھی اٹھائیں گے۔ خدا جانے پاکستان کی پارلیمنٹ کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ اگر وہ اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرے گی تو پھر کوئی نہ کوئی تو یہ کام کرے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ خود بھی کام نہ کریں اور کسی کو کرنے بھی نہ دیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی عملی کردارادا نہیں کیا۔ جو اپنی جگہ نہایت افسوسناک امر ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب جب کہ یہ سوال سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے کہ کیا کوئی نا اہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو سکتا ہے کہ نہیں، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ملک میں جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت نافذ کردیں۔ یہ سنہری موقع ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کو ان کے اندر قائم آمریت سے چھٹکارا دلا دیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ کیا کوئی نا اہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے کہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کو کسی ایک شخص یا خاندان کا مرہون منت چھوڑا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ یہ اہم سوال نہیں ہے کہ کون سربراہ ہو سکتا ہے کہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سربراہ کے پاس بادشاہ جیسے اختیارات ہو سکتے ہیں کہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے سیاسی کارکن کی سیاست سے بددلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سیاسی کارکنان کا اپنی سیاسی جماعتوں میں فیصلہ سازی کے حوالہ سے کوئی کردار نہیں ہے۔ سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں میں پارٹی قیادت کے ذاتی ملازم بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں سیاسی کارکن کی نرسری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ نظریاتی سیاسی کارکن کی جگہ ذاتی مفادات کے حصول کے طلبگار آگے آگئے ہیں۔ نعرہ لگانے والوں کے ہاتھوں میں ذاتی کاموں کی درخواستیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ملک میں نظریاتی سیاسی کارکن ختم ہو گیا ہے اور چوری کھانے والے  مجنوؤں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔

میں صرف ن لیگ کو غلط نہیں سمجھتا۔ یہ صف بندی ایسی نہیں ہے کہ ایک طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی بھی نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے خلاف ہیں اور دوسری طرف وہ سیاسی جماعت ہے جو نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے حق میں ہے۔ دراصل یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جماعتوں میں اپنے شاہی خاندانوں کی آمریت قائم رکھنے پر متفق ہیں۔آپ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان کو ہی دیکھ لیں۔ انھوں نے اپنی جماعت میں جمہوریت قائم کرنے کا نعرہ لگایا لیکن وہ مکر گئے کیونکہ انھیں اندازہ ہو گیا کہ اگر انھوں نے اپنی جماعت میں آزادانہ انتخابات کروا دیے تو ان کی خود اپنی پارٹی پر گرفت ختم ہو جائے گی۔ وہ تحریک انصاف کی جس ٹیم کو پارٹی چلانے کے لیے آگے لانا چاہتے تھے.

ان کا کارکن اس ٹیم کے خلاف تھا۔ وہ علیم خان اور جہانگیر ترین کو آگے لانا چاہتے تھے اور اگر پارٹی میں فری اینڈ فیئر انتخابات کروائے جاتے تو یہ ہار جاتے۔ اس لیے کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک میں فری اینڈ فیئر انتخابات کے لیے دھرنے دینی والی سیاسی جماعت اپنے اندر اس اصول کو نافذ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اور اس کی صرف ایک بنیادی وجہ ہے کہ ایسا کرنے سے عمران خان کی شخصی آمریت ختم ہو جاتی۔ پارٹی ان کے ماتحت نہیں بلکہ وہ پارٹی کے ماتحت ہو جاتے۔ جو انھیں قبول نہیں تھا۔آج بھی تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن میں چیلنج ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ انتخابات فراڈ تھے۔ اگر الیکشن کمیشن ایک بھی جماعت کو حقیقی انٹرا پارٹی انتخابات کروانے پر مجبورکر دے تو سب کو کان ہو جائیں گے اور فراڈ رک جائے گا۔

اسی طرح آٹھ سال قید کاٹنے والے آصف زرداری ملک میں جمہوریت کے لیے تو ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اپنی جماعت میں جمہوریت قائم کرنے کو تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی میں تو رسمی مشاورت کا بھی کوئی عمل نہیں ہے۔ سینٹرل ایگزیکٹو کا تو سال میں ایک آدھ اجلاس ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی سطح پر مشاورت کا کوئی عمل نہیں۔ ہر سطح پر نامزدگی ہے۔ پارٹی پالیسی بنانے کے لیے کسی بھی سطح پر مشاورت کا کوئی عمل نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے تو خلاف ہے۔ ملک میں جمہوریت کے لیے تو کوشاں ہے لیکن اپنی جماعت میں انتخابات اور جمہوریت کے لیے تیار نہیں۔ سب کچھ زرداری صاحب اور بلاول کے گرد گھوم رہا ہے۔ جو بہر حال جمہوریت نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک میں جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی سیاسی جماعت جس کے کارکنوں نے جمہوریت کے لیے کوڑے کھائے ہیں، زندگیاں تباہ کی ہیں وہ بھی اپنے کارکن کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

نواز شریف کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کسی قانونی فیصلہ سے اپنی سیاسی طاقت برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اگر انھوں نے اس ملک میں سول بالادستی کی لڑائی لڑنی ہے جمہوریت کی لڑائی لڑنی ہے تو انھیں اپنی جماعت میں بھی جمہوریت رائج کرنی ہو گی۔ اگر فیصلے شریف خاندان نے کرنے ہیں اور کارکن کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں تو نہ تو سول بالادستی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی جمہوریت مضبوط کی جا سکتی ہے۔ نواز شریف کو قدم بڑھاتے ہوئے اپنی جماعت میں جمہوریت نافذ کر دینی چاہیے ۔ آپ مان لیں کہ ان کے اس قدم سے ملک میں جمہوریت بہت مضبوط ہو جائے گی۔

میری خواہش ہے کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ ہو سکتا ہے کہ نہیں کے مقدمہ میں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نافذکرنے کے احکامات دے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو واضح احکامات اور طاقت دے۔پارٹی سربراہ کا چناؤ بند کمروں میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر سیاسی جماعت کے ہر کارکن کو اس ضمن میں ووٹ دینے کا پابند بنایا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے رجسٹرڈ کارکنوں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا پابند بنانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی انتخابات کم از کم الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہونے چاہیے۔ ہر رجسٹرڈ کارکن کو سیکرٹ بیلٹ سے ووٹ کا حق ہونا چاہیے۔ پارٹی پالیسی کے لیے سینٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس لازم ہونا چاہیے۔ مرکزی مجلس عاملہ میں نامزدگیاں نہیں ہونی چاہیے۔ سب سیاسی جماعتوں کو اس ضمن میں ایک نظام کا پابند ہونا چاہیے اگر یہ ملک میں ایک آئین ایک قانون کے تحت کام کرنے کے لیے تیار ہیں تو سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے نفاذکے لیے ایک قانون اور ایک اصول کیوں نہیں ہو سکتا۔

کیا یہ پارٹی کارکنوں کا حق نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ ان کی جماعت کی قیادت کون کرے گا۔ پارٹی کے ہر سطح کے امیدواروں کا فیصلہ کسی ڈرائنگ روم میں نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ اختیار مقامی کارکنوں کے پاس ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کا امیدوار کون ہو گا یہ فیصلہ بھی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہونا چاہیے جیسے جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے پاس سنہری موقع ہے۔ انھیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

پاکستان کی جمہوریت کو سیاسی جماعتوں کے اندر قائم بادشاہتوں آمریتوں اور شاہی خاندانوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اگر ہم یہ بت توڑ دیں تو ملک میں جمہوریت اس قدر مستحکم ہو جائے گی کہ کوئی بھی ادارہ اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک یہ جمہوریت بھی کمزور رہے گی۔ اور اس کو خطرات بھی رہیں گے۔ اگر ہم سپریم کورٹ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک میں آمریت کا راستہ روکے گی تو یہ توقع کیوں نہیں رکھ سکتے کہ وہ سیاسی جماعتوں میں آمریت کا راستہ روکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔