جناح ، ان کی رتنا اور دینا

جاوید قاضی  جمعرات 9 نومبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

دینا واڈیا (جناح) کیا گئیں، اک لمحے کے لیے جیسے سب ساکن ہوگیا۔ “South Court” ممبئی (بمبئی) ڈھائی ایکڑ اراضی پر بنا بیرسٹر محمد علی جناح کا گھر۔ 1936ء میں جناح نے خود یہ بنوایا تھا۔ اس زمانے کے مشہور آرکیٹیکٹ Clande Batley  نے اس کا نقشہ ترتیب دیا تھا، اٹلی سے ماربل آیا، اخروٹ کی لکڑی استعمال ہوئی، یورپین طرز پر بنے اس شاندارگھرکی ایک ایک اینٹ خود جناح نے سپروائزکی۔ غالباً یہ گھر جناح نے اپنی بیٹی دینا کے لیے بنوایا تھا۔ ایک شخص جو اپنی بیوی رتنا بائی (مریم جناح) سے بہت پیار توکرتا تھا مگرکبھی بھی اس سے کھل کر اس پیارکا اظہار نہ کرسکا۔ ان کی عمر میں 24 سال کا فاصلہ تھا۔ 20 فروری 1929ء کو رتنا بائی صرف 29 سال کی عمر میں وفات پاگئیں، تب ان کی بیٹی دینا کی عمر فقط 9 سال تھی۔

جناح اپنی اندرکتنے تنہا تھے۔ دس سال کی شادی میں آدھا زمانہ تو Separation میں گزارا۔ رتی جناح کا پیار بھی تھا تو رکاوٹ بھی، وہ جناح جو ٹھیک ان زمانوں میں کانگریس چھوڑ رہے تھے، جب ان کی شادی رتی سے ہوئی تھی۔ تو دوسری طرف رتی بھی اپنا سب کچھ چھوڑکے جناح کے پاس آئی تھیں۔ سب رشتے ناتے توڑکر وہ امیر باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ باپ نے پھرکبھی اس سے رشتہ نہ رکھا۔ دوسری طرف جناح کانگریس سے بھی گئے تو مسلم لیگ سے بھی دور تھے وہ سیاسی Isolation  کا شکار ہوچکے تھے۔انھوں نے تنہا رہنا شروع کردیا۔کلب کی ممبر شپ چھوڑدی شام کوگھر لوٹ کے بیوی کے ساتھ وقت گزارتے۔ رتی لوگوں میں گھل ملنا چاہتی تھیں اور جناح تنہائی۔ اور پھر 1927ء میں ان کی آپس میں علیحدگی ہوگئی۔

رتی کے لیے باپ کے گھرکے دروازے بند ہوچکے تھے وہ تاج محل ہوٹل کے کمرے میں شفٹ ہوگئیں۔ یہ وہی ہوٹل ہے جہاں انھوں نے اپنی اٹھارہویں سالگرہ کی تقریب منائی جو ان کے والدین نے منعقدکی تھی، وہ لمحے آہستہ آہستہ سب کو بتانا شروع کیے کہ وہ اور جناح شادی کرنے والے ہیں۔ یہ خبر چونکا دینے والی تھی۔ رتی کی صحت اس علیحدگی کے دور میں بگڑنے لگی۔ بہت سے دوست بیچ میں آئے کہ جناح اور رتی کی صلح ہوجائے، مگر جناح ضدکرکے بیٹھ گئے اور دوستوں کوکہا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور پھر رتی اپنی ماں کے ساتھ پیرس علاج کے لیے نکل پڑیں، جناح ڈبلن میں تھے، بھاگے بھاگے پیرس پہنچے، بیوی بہت کمزور ہوچکی تھی۔ ڈاکٹرز صحیح طرح بتا نہ پائے کہ کونسی بیماری ان کو لاحق ہے۔ پیرس وہ دو مہینے ساتھ رہے۔ رتی پھر روٹھ کر ممبئی واپس تاج محل ہوٹل میں رہنے لگی یہ وہ ہوٹل تھا جو رتی کی ماں کے رشتے داروں کا تھا اور پھر یوں رتی کی طبیعت بگڑتی گئی۔ جناح پھر دہلی دو دن اجلاس کے لیے چلے گئے تھے۔ رتی کے والد نے ان کی شادی کے بعد پہلی بار جناح کو فون کرکے خبر دی کہ رتی اب اس دنیا میں نہیں رہی۔

جناح بہت ہی Introvert  تھے۔ دل کا درد دل میں رکھ کر جینا جانتے تھے۔ کبھی کسی نے ان کو روتے نہ دیکھا۔ 22 فروری کو قبرستان میں دفنائی گئیں۔ جناح 1947ء کو بمبئی کو جب خدا حافظ کر رہے تھے تو وہ اپنی بیوی کی قبرکی طرف آئے تھے، آخری بار۔ بمبئی کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کرتے وقت زندگی میں دوسری بار تھا جب جناح بالکل اسی طرح بین کرتے ہوئے چیخ کر رو پڑے۔

اور پھر یوں جناح بیوی کے انتقال کے بعد سیاست چھوڑکر رتی کی بیٹی جوکہ ان کی بیٹی بھی تھی، اسے ڈھیر سارا وقت دینے کے لیے لندن ہجرت کرتے ہیں۔ اسٹیلنے وولپرٹ لکھتے ہیں کہ 1930ء سے لے کر 1933 تک جناح کی زندگی کا مقصد صرف دینا تھی۔ دینا نے خود اکبر احمد سے دس سال پہلے نیویارک میں ذکرکیا تھا کہ کس طرح ابا اسے تھیٹر دکھانے، سرکس یا کٹھ پتلیوں کے تماشے دکھانے لندن کے بازاروں میں گمھاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب فاطمہ جناح ان کی بہن بھی ان کے ساتھ دینا کی نگہداشت میں رہیں ۔ جناح 1934ء میں بالاخر ہندوستان واپس اپنی بیٹی دینا کے ساتھ لوٹ آتے ہیں۔ 1936ء میں South Court  بنا تو بیٹی اور فاطمہ اسی گھر میں ان کے ساتھ رہنے لگیں اور پھر جناح ایک اور دلدل میں دھنس گئے۔

دینا پر اپنی نانی کے گھرکا اثر تھا وہ اسی کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ اس طرح دینا نے  1938ء میں پارسی مذہب چھوڑ کے کرسچن مذہب اپنانے والے خاندان کے نوجوان Neville واڈیا سے شادی کرنے کا سوچ لیا۔ دینا کی عمر اس وقت ٹھیک اپنی ماں رتی جتنی تھی جب رتی نے جناح سے شادی کا سوچا تھا۔ جناح کے لیے یہ خبر ان کے پورے سیاسی کیریئر پر ایک دھچکا تھی۔ چھاگلا لکھتے ہیں جناح نے اپنی بیٹی سے رشتے ناتے توڑ دیے، مگر وہ لکڑی کا صندوق جس میں رتی اور دینا کی چیزیں جو سنبھال کے انھوں نے رکھی تھیں۔ گھرکے نوکر بتاتے ہیں اکثر مہینے میں دو دفعہ تہہ خانے سے وہ صندوق لانے کوکہتے تھے اور ان ساری یادوں اوران کی چیزوں کو صندوق سے نکال کر قالین پر بچھا کرگھنٹوں دیکھتے رہتے۔ یہ وہ زمانے ہیں جب جناح نے سگار پینا اور بھی زیادہ کردیا تھا۔

پھر کیا ہوا، جناح نے South Court گھر اپنی بہن فاطمہ کے نام کردیا۔ بیٹی 1943ء  میں شوہر سے طلاق لیتی ہے مگر اس کے بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تو مسلمان نہیں تھے، بیٹی کی واپسی اب ممکن نہ تھی۔ بیٹی ممبئی رہ جاتی ہے اور باپ اپنی بہن فاطمہ کے ساتھ کراچی ہجرت کرتے ہیں ۔

1946ء میں جب بیٹی کو پتہ چلتا ہے کہ ابا South Court  بیچنا چاہتے ہیں تو وہ ایک پیار بھرا خط اپنے والد کو لکھتے ہوئے یہ التجا کرتی ہے کہ ان گھر میں ان کی ماں کی کچھ پرانی کتابیں پڑی ہیں توکیا وہ یہ کتابیں اس گھر سے اٹھا سکتی ہے؟ دینا لکھتی ہے وہ 11 آگست 1947ء کے بعد دو مرتبہ پاکستان آئیں اپنی پھپو فاطمہ سے ملنے آئیں مگر 1967ء کے بعد وہ پھر کبھی نہ آئیں بس ایک دفعہ 2004ء میں …

2  نومبر2017 ء دینا 98 سال کی عمر میں نمونیا میں انتقال کرگئیں۔ ماں کی تدفین مسلمان رسومات کے مطابق ہوئی اور بیٹی کی تدفین کرسچن رسومات کے مطابق۔ خود جناح کے پڑدادا پریمی بھائی ہندو مذہب سے مسلمان ہوئے تو خو د سے شیعہ فرقے کو قریب پایا۔ جناح کا انتقال ہوا تو نماز جنازہ ایک سنی فرقے کے ناتے اور دوسری شیعہ فرقے کے حوالے سے ہوئی۔ فاطمہ کے انتقال پر بھی یہی رسومات اپنائی گئیں۔

اور اگر دینا کسی مسلمان سے شادی کرتی توکیا ہوتا؟ جناح یقیناً South Court بیچ کرکراچی آتے۔ ان کی سیاسی وارث دینا بنتی اور شاید ایوب خان کے لیے شب خوں مارنا اورلیاقت علی خان کا مسلم لیگ پر سکہ جمانا اتنا آسان نہ ہوتا۔

مگر دیکھیے تو ذرا جناح کی بیٹی کو جو ٹریننگ اس کے والد یا پھر ان کی ماں نے دی یا جو فاطمہ یا اپنی نانی سے پائی۔ وہی اصول وہی خود اعتمادی۔ فقط اک خواہش دینا کی ادھوری رہ گئی وہ باقی زندگی کے دنSouth Court  میں گزارنا چاہتی تھیں۔ وہ ان یادوں کے ساتھ جو ابا کے ساتھ اس گھر میں اس نے گزگزاریں تھیں شادی سے پہلے تک۔

بہت آرزو تھی گلی کے ترے

سویاں سے لہو میں نہا کر چلے

(میر)

جناح ان کی رتنا اور دینا نہ جانے کہاں کھوگئے۔ South Court  وہیں رہ گیا۔ بیٹی امریکا میں چل بسی۔ رتی فقط 29 سال کی عمر میں چلی گئیں ، مگر جو 5 اکتوبر 1928ء میں ایک خط رتی نے بستر مرگ سے شوہر کو لکھا تھا، اس کے آخری جملے کچھ اس طرح سے تھے۔

’’میری جاں میں نے بہت جھیلا ہے کہ میں نے بہت پیارجوکیا تھا۔ میرا جھیلنا خود پیمانہ ہے پیارکے پیمانے کی طرح۔

ڈارلنگ، میں نے تم سے پیار کیا ہے، کرتی ہوں اورکرتی تھی۔

میں نے تم سے پیارکیا تھا ڈارلنگ کہ کچھ لوگوں سے کیا جاتا ہے۔ بس اب تم سے اک چیزکی طلبگار ہوں کہ یہ سانحہ جو پیار سے شروع ہوا تھا اسی طرح ختم بھی ہو…‘‘

مگر میں سوچتا ہوں جناح پاکستان میں مشغول رہے اور اس کے دو پیارے رتی اور دینا دونوں ادھورے رہ گئے۔

آخر شب کے ہم سفر نہ جانے کیا ہوئے

رہ گئی کدھرکو صبح رات نہ جانے کہاں نکل گئی

(فیض)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔