ویسٹ انڈین ٹیم کیوں نہیں آ رہی؟

سلیم خالق  جمعرات 9 نومبر 2017
 کئی روز قبل ہی یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ مہمان کرکٹرز سیکیورٹی پر تشویش اور بی پی ایل کی مصروفیات کے باعث نہیں آنا چاہتے؛فوٹوفائل

کئی روز قبل ہی یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ مہمان کرکٹرز سیکیورٹی پر تشویش اور بی پی ایل کی مصروفیات کے باعث نہیں آنا چاہتے؛فوٹوفائل

چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے گذشتہ چند روز میں ایسے کئی بیانات دیے، مگر بات وہی ہے کہ پہلے تولو پھر بولو، سیٹھی صاحب کا چونکہ میڈیا سے تعلق ہے اس لیے لائم لائٹ میں رہنا پسند کرتے ہیں،ان کی چڑیا چونکہ ویسٹ انڈیز تک پہنچ نہیں رکھتی اور پاکستان میں وہ خوشامدیوں کے ٹولے میں گھرے رہتے ہیں لہذا کسی نے انھیں زمینی حقائق سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا، اس لیے اب شرمندگی اٹھانا پڑ رہی ہے.

گوکہ بورڈ لاہور میں اسموگ کو سیریز نہ ہونے کی وجہ قرار دے رہا ہے مگر کئی روز قبل ہی یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ مہمان کرکٹرز سیکیورٹی پر تشویش اور بی پی ایل کی مصروفیات کے باعث نہیں آنا چاہتے، اب سب سے پہلی بات تو یہ کہ چیئرمین ذہن نشین کر لیں کہ چاہے 50 کروڑ روپے خرچ کر کے ہی سہی مگر ورلڈ الیون پاکستان آچکی، اسی طرح سری لنکا کی بی ٹیم آئی مگر دورے سے تاریخ رقم ہوئی۔

یہ کریڈٹ بورڈ سے کوئی نہیں چھین سکتا، مگر سب کچھ 2017میں ہی کرنا ضروری تو نہیں، عام حالات میں بھی ایک برس کے دوران 2 سے زیادہ ٹیمیں کم ہی کسی ملک کا دورہ کرتی ہیں لہذا آرام سے بیٹھ کر نئے سال کی پلاننگ کرتے، مگر نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانے کی کوشش میں جلد بازی کر بیٹھے،شاید انھیں لگتا ہے کہ آئندہ برس حکومت کی تبدیلی سے ان کا بورڈ میں دور ختم ہو جائے گا، اس لیے جو کرنا ہے جلدی کر لو، ویسٹ انڈیز سے جب تک معاملات طے نہ ہوتے آپ کو اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا، اب ہماری ساری محنت رائیگاں چلی گئی، باہر لوگ باتیں بنا رہے ہیں کہ سری لنکا کے اہم پلیئرز دستبردار ہو گئے اور اب ویسٹ انڈیز نے منع کر دیا، شاید پاکستان کے حالات اب تک ٹھیک نہیں ہوئے، یہ غلط تاثر چیئرمین کی وجہ سے ہی گیا، آپ یاد کریں ورلڈ الیون سے سیریز کے وقت جب ویسٹ انڈین بورڈ چیف ڈیو کیمرون لاہور آئے تو انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ دورے کیلیے تیار ہیں مگر پلیئرز کو منانا سخت چیلنج ہوگا۔

اس وقت ہم نے ان کی بات پر توجہ نہ دی، لاکھوں روپے تنخواہیں بٹورنے والے بورڈ ملازمین نے اپنے چیئرمین کو یہ بتانا ضروری نہ سمجھا کہ سر کیریبیئن پلیئرز کو نیوزی لینڈ جانا ہے، وہ بنگلہ دیش لیگ بھی کھیلیں گے، آگے دھند کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے،ذرا سوچ سمجھ کر اعلان کریں، نتیجہ وہی ہوا جس کی توقع تھی، سری لنکا میں پلیئرز کمزور اور بورڈ مضبوط ہے، اس نے اپنی مرضی چلا کر دوسرے درجے کی ٹیم پاکستان بھیجی اور انکار کرنے والوں کو یو اے ای میں بھی ٹی ٹوئنٹی میچز نہیں کھلائے، ویسٹ انڈیز کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، وہاں کا بورڈ کمزور اور پلیئرز طاقتور ہیں، یہ درست ہے کہ انھیں پیسے دیں تو افغانستان بھی کھیلنے جا سکتے ہیں، پی سی بی نے یہی سوچا تھا مگر بنگلہ دیش سے بھی ڈالرز آ رہے تھے اس لیے ویسٹ انڈین کرکٹرز نے دلچسپی نہیں دکھائی، اب اسموگ کا بہانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے ہی سیریز منسوخ ہو چکی تھی ، البتہ یہ حقیقت ہے کہ اگر تصدیق ہو بھی جاتی تو موسم کے سبب انعقاد نہ ہو پاتا، پی سی بی نے اپنی تمام تر توجہ صرف لاہور پر مرکوز رکھی،اب نیشنل اسٹیڈیم میں اب ڈیڑھ ارب روپے سے تزئین وآرائش شروع ہوئی ہے، اسے تیار ہونے میں وقت لگے گا،راولپنڈی میں شارٹ نوٹس پر میچز کا انعقاد ممکن نہ تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے حکام کی پلاننگ میں کتنے جھول تھے،آپ یہ دیکھ لیں کہ جو لوگ بار بار قومی ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کا شیڈول بدل رہے ہوں وہ انٹرنیشنل مقابلوں کی منصوبہ بندی کیسے کر سکتے تھے، اب نجم سیٹھی کو بڑی بڑی باتوں کے بجائے آئندہ سال کا انتظار کرنا چاہیے ، پوری پی ایس ایل پاکستان کے اسٹیڈیمز میں کرا دیں، پھر کسی اور ٹیم کو بلائیں اس سے ہمارا کیس مضبوط ہوگا، مگر اس وقت بدقسمتی سے چیئرمین من مانیوں میں مصروف ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے، ڈومیسٹک کرکٹ کا تیا پانچہ کرنے والے شکیل شیخ کو وہ اپنا ایڈوائزر بنا کرپھر بورڈ میں لے آئے،ایزد سید کو ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹایا مگر ناراضگی سے بچنے کیلیے مشیر بنا دیا،اگر چیئرمین کو مشیروں کی اتنی ضرورت تھی تو کسی کرکٹر کو لے آتے مگر چند ایک کو چھوڑ کر انھیں تمام سابق کرکٹرز سے الرجی ہے، گورننگ بورڈ میں بھی اسی لیے تمام نان کرکٹرز موجود ہیں، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ملکی کرکٹ کے تمام فیصلے نان کرکٹرز کر رہے ہیں، ہارون رشید اب کرکٹر بن کر نہیں سوچتے بلکہ یس مین بن چکے ہیں، اس لیے ان کے بورڈ میں ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جس کی جو مرضی ہے وہی کر رہا ہے۔

انضمام الحق کو بھی کھلی چھوٹ مل چکی، چیف سلیکٹر ہونے کے باوجود وہ مختلف دوسرے کام بھی کر رہے ہیں، ٹی ٹین میں بھارتی مالکان کی موجودگی اور مسائل کا اندازہ ہونے کے باوجود بورڈکھلاڑیوں کی کھیپ بھیج رہا ہے، پھر کوئی اسکینڈل سامنے آئے گا تو قوم کو بے وقوف بنانے کیلیے کہیں گے ’’ ہماری تو زیرو ٹالیرنس پالیسی ہے‘‘ بیشتر ریٹائرڈ کرکٹرز کی لیگ میں کسی ملک کے اتنے زیادہ کھلاڑی موجود نہیں جتنے ہمارے ہیں، نائنٹیز کے سارے ’’عظیم کرکٹرز‘‘ بھی ساتھ ہوں گے، بدقسمتی سے نجم سیٹھی کو کرکٹ کی سمجھ نہیں اور اردگرد موجود لوگ یس سر کے علاوہ کچھ کہنے کی جرات نہیں رکھتے، اس لیے کئی بڑے مسائل سامنے آ چکے ہیں ، البتہ بات وہی ہے ابھی ٹیم جیت رہی ہے اس لیے کوئی ان پر توجہ نہیں دے رہا،پہلے پی سی بی کو دفاع کیلیے میڈیا ڈپارٹمنٹ کی ضرورت ہوتی تھی اب وہ غیر فعال ہے اور میڈیا ہی اس کی غلطیوں کا دفاع کرنے سامنے آ جاتا ہے، خصوصاً ٹویٹر پر تو نجم سیٹھی کے جان نثاروں کی بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں اگرکوئی صحافی حقائق سامنے لائے توالٹا اسے ہی طعنے ملتے ہیں، مگر ہمارا جو کام ہے انشا اﷲ وہ جاری رکھیں گے، کسی کا ترجمان بن کرصحافت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔