بلوچستان میں ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کی ملی بھگت

ببرک کارمل جمالی  ہفتہ 11 نومبر 2017
بلوچستان میں اتائی ڈاکٹروں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی بھرمار نے مریضوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بلوچستان میں اتائی ڈاکٹروں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی بھرمار نے مریضوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مریض اور ڈاکٹر میں رشتہ داروں جیسا تعلق نہیں ہوتا مگر پھر بھی مریض رشتے داروں سے زیادہ بھروسہ اپنے معالج پر کرتا ہے۔ مریض کبھی یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا معالج اس کی غلط تشخیص کرے گا۔ مریض یہ سوچ کر اسپتال جاتا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے معالج کی ادویہ سے صحت یاب ہوجائے گا۔ لیکن افسوسناک خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے اکثر معالج حضرات مریضوں کو اپنا گاہک سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ معالج اور ادویہ ساز کمپنیوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ یہ گٹھ جوڑ مریضوں کےلیے وبال جان بن رہا ہے۔

بلوچستان میں اتائی ڈاکٹروں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی بھرمار نے مریضوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اوپر سے یہ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کو ہر ماہ کروڑوں کا منافع کما کر دیتے ہیں۔ جب ایک میڈیکل اسٹور کے مالک سے جعلی دواؤں کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ کون سی ادویہ اچھی کمپنی کی ہیں اور کون سی بُری اور نقلی کمپنی کی۔ ڈاکٹروں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے بلوچستان میں عام لوگوں پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج بھی اکثر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بلوچی علاج معالجہ بھی کیاجاتا ہے جو مختلف جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ علاج غریب لوگوں کےلیے موت کا سبب بن رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تو بلوچستان میں طب کا شعبہ کوڑیوں کے داموں بک رہا ہے۔

بلوچستان حکومت پانچ سال میں ایک ڈاکٹر کی تیاری پر لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے مگر جب ان ڈاکٹروں کو ڈگری اور سرکاری نوکریاں دی جاتی ہیں تو یہ لوگ پھر بھی اپنا کلینک کھول لیتے اور سرکاری اسپتالوں میں وقت نہیں دیتے۔ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف پیسے اکٹھے کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک عمل ہے۔

حکومت بلوچستان نے ان ڈاکٹروں کے سروس اسٹرکچر تک منظور کرلئے ہیں جس کی وجہ سے فی ڈاکٹر تنخواہ کم از کم ایک لاکھ روپے تک بنتی ہے لیکن پھر بھی ڈاکٹر حضرات اپنے کلینک کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونے دیتے اور غریب مریضوں کی کھال اتارنے میں پوری دس انگلیوں کا زور لگاتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن کے علاج کےلیے والدین در در کے پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے آخری سانسیں لے کر اپنی جان دے دیتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں کی حالت دیکھ کر مریض خودبخود موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

بلوچستان میں ادویہ ساز اداروں نے ڈاکٹروں کے ساتھ مک مکا کررکھا ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اتنے لاکھ کی ادویہ استعمال کرائیں گے تو انہیں اتنے لاکھ کا چیک دیا جائے گا جبکہ 25 فیصد سے لے کر 50 فیصد تک کا کمیشن ڈاکٹر اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہ کمیشن کمپنیوں سے ایڈوانس کی شکل میں بھی لیا جاتا ہے اور یوں کمیشن ہولڈر ڈاکٹر اندھادھند مریضوں کو ادویہ لکھ دیتے ہیں اور اپنا ٹارگٹ پورا کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر ان کمپنیوں سے اپنے ذاتی گیس بجلی اور پانی کے بل تک بھی ادا کرواتے ہیں۔

ان حالات میں خوش آئند بات یہ ہے کہ محکمہ صحت حکومت بلوچستان نے دن کے اوقات میں پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کی پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کردی ہے جبکہ حکومت بلوچستان نے اپنے جاری شدہ اجازت نامے، کلینک کا نام، بینک اکاؤنٹ، انکم ٹیکس گوشوارہ جات اور کلینک کے اوقات کی تفصیل کے ساتھ پی ایم ڈی سی رجسٹریشن کی کاپی متعلقہ ڈی سی کے توسط سے تمام کلینک سے طلب کی ہے مگر تاحال اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا جو حکومت وقت کےلیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جانورں کے انجکشن انسانوں پر بطور آزمائش استعمال کیے جاتے ہیں جس کے کئی ثبوت موجود ہیں مگر حکمرانوں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ حتیٰ کہ بلوچستان کی سرزمین پر بہت سی ایسی بیماریاں اور وبائی امراض غریب آبادیوں میں پائے جاتے ہیں جن کا علاج ممکن تو ہے مگر ان کےلیے ادویہ نہیں بنائی جاتیں کیونکہ اس سے زیادہ منافع ملنے کا امکان ادویہ ساز کمپنیوں کو نہیں ہوتا، یہ بلاشبہ ایک اور افسوسناک عمل ہے۔

آج بھی بلوچستان میں ادویہ سازی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے پر کسی بھی دوسرے کاروبار سے کہیں زیادہ منافع ملتا ہے اور محض معاشی طور پر بلوچستان کے بااثر صنعتکار ہی اس صنعت کو شروع کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ دنیا میں انسانیت نے اس دورِ جدید میں جس شعبے میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ میڈیکل سائنس ہے۔ اس کی بدولت دنیا کے انسانوں کی زندگیاں بڑھ رہی ہے مگر بلوچستان میں سب کچھ الٹا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اوسط عمر بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے۔ ویسے بھی انسانی زندگی میں یہ عمل جدید سائنسی دور میں ترقی کے بجائے تنزلی کی علامت ہے۔

کاش بلوچستان کے ڈاکٹر اپنی ذاتی خواہشات کو انسانی ترقی، انسانی آسودگی اور ان کی خوشحالی کےلیے وقف کردیں اور اپنے قیمتی وقت کو انسانی محبت کےلیے قربان کردیں تو بلوچستان ضرور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، ان شاء اللہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔