نواز، زرداری صلح ہو سکتی ہے

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 10 نومبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جناب محمد نواز شریف پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بنے۔ منتخب وزیر اعظم۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو آج تک وطنِ عزیز کے کسی سیاستدان کا مقدر نہیں بن سکا ہے۔ یوں نواز شریف اس منفرد اعزاز پر بجا فخر کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی مگر اُن کی ملاحظہ کیجئے کہ وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کا ایک بھی دَور مکمل نہیں کر سکے۔ وہ اگر اپنا ایک بھی دَورِ وزارتِ عظمیٰ پورا کرسکتے تو ممکن ہے پاکستان آج سے کہیں مختلف ہوتا۔ ناکامیوں میں اُن کے ذاتی فیصلوں، سیاسی مخالفین کی کوششوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ’’حکمتِ عملیوں‘‘ کا کتنا کردار ہے، اِن کا فیصلہ ابھی تاریخ کو کرنا ہے۔

نواز شریف اب ایک بار پھر مشکلات اور آزمائشوں کا شکار ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ انھیں نااہل قرار دے چکی ہے مگر نواز شریف، اُن کے بیشمار چاہنے والے اور اُن کی پارٹی اس فیصلے کو تسلیم کر رہی ہے نہ اسے انصاف ماننے پر تیار ہے۔ 7نومبر 2017ء کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کی نظرِ ثانی کی درخواستوں کو مسترد کیے جانے کا جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے، اس نے نواز شریف کی مشکلات کو دوچند کر دیا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں بھی میاں صاحب اور اُن کی صاحبزادی کی طرف سے سخت ناراضی کا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

تفصیلی فیصلے کے مندرجات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کو اپنے سیاسی حریف، محمد نواز شریف، پر مزید ’’حملے‘‘ کرنے کا موقع ملا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف کو اِس حال تک پہنچانے میں عمران خان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی مگر واقعہ ہے کہ اگر اِن مشکل ترین حالات میں نواز شریف کو سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا ساتھ اور سہارا میسر ہوتا تو اُن کی مشکلیں آسان بھی ہوجاتیں اور وہ اتنے دگرگوں حالات کا سامنا بھی نہ کر پارہے ہوتے۔

آخر ہُوا کیا کہ جو آصف زرداری آگے بڑھ کر ہر قدم پر نواز شریف سے تعاون کرتے نظر آرہے تھے، یکا یک نواز شریف سے دُور کیوں ہو گئے؟جناب نواز شریف سے ظاہری اور باطنی تعاون کرنے کی ’’پاداش‘‘ میں زرداری صاحب نے تادیر پی ٹی آئی کے سخت نقادوں کی طرف سے ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے طعنے مہنے بھی برداشت کیے مگر اُن کا نواز شریف کی طرف بڑھا دستِ تعاون پیچھے نہ ہٹ سکا۔ پھر کیا سانحہ ہُوا کہ نواز شریف سے وہ اب بات کرنے پر بھی تیار نہیں؟ نواز شریف اُن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں مگر زرداری صاحب اُن کا ہاتھ تھامنے پر آمادہ نہیں ہو رہے؟

جناب نواز شریف تیسری بار برسرِ اقتدارآئے تو آصف علی زرداری صاحب کئی بار ازخود میاں صاحب سے ملنے گئے۔ ان ملاقاتوں کا واحد مقصد یہی تھا کہ میاں صاحب ممکنہ دباؤ سے مطلق آزاد رہ کر حکومت کریں تاکہ قومی پالیسیوں کا تسلسل بھی برقرار رہ سکے۔ خیر سگالی کی فضا مستحکم کرنے کے لیے زرداری صاحب نے 16اپریل 2014ء کو وزیر اعظم نواز شرف سے پی ایم ہاؤس میں ملاقات کی۔ اُن کے ساتھ خورشید شاہ، رضا ربانی اور مراد علی شاہ (جو اَب وزیر اعلیٰ سندھ ہیں) بھی تھے۔ نواز شریف نے خوش دلی سے اُن کا استقبال کیا تھا۔

یہ ایک نہائیت مستحسن ملاقات تھی جس میں میاں صاحب کے ساتھ اسحاق ڈار اور زاہد حامد ایسے معتبر وزرا بھی شریک تھے۔اِس سے پہلے جنوری 2014ء میں بھی نواز، زرداری ملاقات سندھ میں اُس وقت ہُوئی تھی جب میاں صاحب تھرکول منصوبے کا افتتاح کرنے گئے تھے۔ اس ملاقات سے بھی، مستقبل کے حوالے سے کئی مثبت اور بلند توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے رہبرورہنما آصف زرداری ملک میں بہترین اور مستحکم سیاسی ماحول قائم رکھنے کی نیت سے نواز شریف سے ذاتی حیثیت میں ملنے کے لیے رائیونڈ بھی چلے گئے۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنی ناک کا مسئلہ بنایا نہ مخالفین کی طعن انگیزیاں خاطر میں لائے۔

جناب زرداری کے رائے ونڈ جانے کے عمل کو ملک کے ہر اُس طبقے نے سراہا جو مملکتِ خدادا کا خیر خواہ ہے۔ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے محمد نواز شریف سے آصف علی زرداری کی یہ سب ملاقاتیں اِس امر کی مظہر اور غماز تھیں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد میں متحد بھی ہیں، یکجا بھی اور یکجہت بھی۔یقیناً نواز، زرداری یہ میل ملاقات خوشگوار بھی تھی، اور امید افزا بھی۔جناب زرداری بہت سوچ سمجھ کر میاں صاحب سے ہر قدم پر تعاون کررہے تھے۔ ہاں، وہ اندرونی اور بیرونی قوتیں بہرحال اس منظر سے خوش نہیں تھیں جو مملکتِ کی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو اکٹھے ہو کر ملک کی خدمت کرتے نہیں دیکھ سکتیں۔

جناب عمران خان نے میاں صاحب کے خلاف اسلام آباد میں ’’تاریخی‘‘ دھرنے کا اقدام کیا تو ایک بار پھر پیپلز پارٹی اپنے قائد،آصف زرداری، کے حکم پر میاں صاحب کے ہمقدم اور ہمنوا دیکھی گئی۔ عمرانی دھرنے کے کارن میاں صاحب کا تخت بُری طرح لرز رہا تھا مگر زرداری صاحب کے تعاون سے اِسے پائیدار سہارا ملا۔ سچ یہ ہے کہ نواز شریف یہ شکوہ نہیں کرسکتے کہ زرداری نے اُن کے ساتھ کبھی تعاون نہیں کیا میاں صاحب تیسری بار وزیر اعظم بنے تو زرداری نے کھلے دل سے نواز شریف کے راستے میں پڑنے والے ممکنہ کانٹے بھی چُننے کے عملی مظاہرے کیے اور اُن کے راستے کے پتھر بھی ہٹا دیے۔

آج نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان جو ناراضی، کشیدگی اور سیاسی خلیج نظر آرہی ہے، اِس کے ذمے دار خود میاں صاحب ہیں۔ تلخ بات یہ بھی ہے کہ زرداری صاحب کو ناراض کرنے کے مواقع میاں صاحب اور اُن کے قریبی ساتھیوں نے فراہم کیے ہیں۔ ہاتھوں سے دی گئی گرہیں اب دانتوں سے کھولنے کی سعی کی جارہی ہے لیکن یہ گرہیں کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔زرداری صاحب کی ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘‘ والی معروف تقریر کے بعد حالات خراب ہُوئے تو دستگیری اور تعاون کے لیے زرداری صاحب نے میاں صاحب کی جانب دیکھا۔ انھیں فون کیے اور ملاقات کا وقت مانگا لیکن جواب میں نواز شریف کی طرف سے ایک سفاک خاموشی چھائی رہی۔ وقت گزر گیا زرداری مشکل گھڑیوں سے نکل گئے۔

اب یہ آزمائشی لمحات نواز شریف پر طلوع ہُوئے ہیں تو وہ زرداری کی طرف امید بھری نظروں سے ہرروز دیکھتے ہیں لیکن زرداری ’’جیسا کروگے، ویسا بھرو گے‘‘ کا سبق دے رہے ہیں۔وہ میاں صاحب کا فون سننے پر تیار ہیں نہ اُن کے کسی ساتھی کا پیغام لینے پر آمادہ۔ ایک معروف کاروباری شخصیت نے میاں صاحب سے رائیونڈ میں دوگھنٹے ملاقات میں ڈیل کروانے کے لیے ڈول تو ڈالا مگر زرداری صاحب نے ہاتھ ہی نہ پکڑائی دیا۔نواز شریف نے صلح کی خواہش میں ’’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ‘‘ کی تجویز پیش کی تاکہ پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرکے مصائب سے جان چھڑائی جا سکے مگر زرداری صاحب نے اِسے بھی مسترد کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ رواں لمحوں میں صلح کی زیادہ ضرورت جناب نواز شریف کو ہے لیکن میاں صاحب کے بعض قریبی سنگی ساتھی پیپلز پارٹی اور زرداری کے بارے میں جو اسلوبِ گفتگو اپنائے ہُوئے ہیں، یہ صلح کے مواقع مزید کم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

نواز، زرداری صلح اب بھی ہو سکتی ہے۔ شرط مگر یہ ہے کہ نواز شریف کسی روز تمام تحفظات بالائے طاق رکھتے ہُوئے گاڑی پکڑیں اور بلاول ہاؤس کے دروازے پر دستک دے ڈالیں۔ اگر زرداری صاحب معاملات بہتر بنانے کی خاطر جاتی امرا جا سکتے ہیں تو نوازشریف کو بھی ذاتی (اور قومی) مفادات میں بلاول ہاؤس جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان جن گمبھیر اور سنگین معاشی، سیاسی اور سفارتی بحرانوں کی زَد میں ہے، لازم ہے کہ میاں صاحب اپنی ناک اور مونچھ نیچی کرکے آصف زرداری سے معانقہ اور مصافحہ کرنے چلے جائیں۔ کسی بھی مزید تاخیر کے بغیر۔ بلاول ہاؤس کا بڑا مکین اگر نواز شریف کی دستک کا مثبت جواب نہیں دیتا تو وہ عوام کا مزید اعتماد کھو دے گا۔ میاں صاحب اس جانب قدم اُٹھا کر تو دیکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔