شرق اوسط کا نیا بحران اور ہم

انیس باقر  جمعـء 10 نومبر 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

ابھی شام کی جنگ ختم نہیں ہوئی کیونکہ شام کے نواحی علاقوں سے سعودی حمایت یافتہ النصرہ اور ان کے رفقا کی پسپائی ہو رہی ہے کہ اسی اثنا میں سعودی عرب کی حکومت کوکئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ 2015ء سے یمنی بحران تو چل رہا تھا جس میں حوثی اورانصار اللہ ملیشیا سعودی حمایت یافتہ حکمران ہادی کو ملک سے بھگا چکے ہیں اور دونوں ملک روبرو ہیں۔ اسی دوران ملک میں شہزادہ طلال کے حامی گروپ کے خلاف حکمران کی جانب سے اپریشن ہوا جو بڑے پیمانے پر سیکڑوں لوگوں کے خلاف جاری ہے۔

شہزادوں اور دیگر اہم لوگوں میں  نیوی کے سربراہ شہزادہ عبداللہ سلطان اور دیگر وزرا شامل ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری سیاسی کشمکش بالآخر ایک نتیجے پر پہنچی۔ کیونکہ نامزد شہزادے نے جو اعلانات کیے تھے اس کا ردعمل متوقع تھا شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ مملکت میں اسلامی قوانین کو اعتدال پسندانہ انداز میں نافذ کیا جائے گا۔

اس مسئلے پر الجزیرہ ٹی وی کے ایک رپورٹر نے شہزادے سے سوال بھی کیا تھا کہ اس کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ تو انھوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں انتہا پسندانہ قوانین کا اطلاق محض اس لیے کیا گیا تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا۔ مگر سعودی حکومت نے جو اعلان کیا ہے وہ ممکن ہے درست ہو اور جو بیان کیا گیا ہے وہ وجہ ہی درست ہو اور یہ ردعمل درست نہ ہو اور یہ قیاس پر مبنی ہے کیونکہ بکر بن لادن بھی حراست کنندگان میں شامل ہیں لیکن اینٹی کرپشن میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس ہے۔ جس نے قیاس آرائی کو جنم دیا۔

بہرصورت شرق اوسط میں جلد تنازعات شروع ہونے کے امکانات ہیں۔ خصوصاً ایران اور سعودی عرب کے مابین ہر روز تلخی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب پاکستان کے کمانڈر انچیف قمر باجوہ 6 نومبر سے ایران کے دورے پر ہیں آپ کو یاد ہوگا کہ جب راحیل شریف نے اسلامی فوج کی کمان سنبھالی تھی تو اس موقعے کی توقعات کا اظہار عمران خان نے دور اندیشی سے قبل ازوقت لگالیا تھا۔ ظاہر ہے ایسے موقعے پر اس دورے کے نتائج دوستانہ تعلقات کے فروغ کے علاوہ اور کیا ہوسکتے ہیں۔

خصوصاً شہزادہ محمد بن سلیمان کے اس بیان کے بعد جو انھوں نے دیا ہے کہ حوثیوں نے جو میزائل داغا ہے جو ریاض میں گرا ہے وہ حوثیوں کے نام سے ایران کا عمل لگتا ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اگر یہ معاملہ ختم نہ ہوا تو جنگ کا دائرہ ایران تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے بیان سے ایران اور سعودی تعلقات کشیدہ تر ہوگئے ہیں۔ خصوصاً ایسے وقت جب ایران اور سعودی حکمرانوں کی زبانی کلامی جنگ شروع ہوچکی ہے اور ایرانی کمانڈر انچیف نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ جب کہ سعودی عرب میں کرپشن کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اورگرفتاریاں مزید وسیع تر ہو رہی ہیں۔ پیر کو گرفتار ہونے والوں میں نصیر بن عقیل کا نام ہے، جو بڑے الطیارگروپ کے سربراہ ہیں۔ ایک طرف اندرونی خلفشار دوسری جانب بیرونی کشمکش سیاست کا یہ رخ ناقابل فہم ہے؟ کہ کرپشن کے خلاف ایسی فوری کارروائی عمل میں آئی ہے جیسے حکمراں جماعت میں پھوٹ پڑ گئی ہو۔

دوسری جانب ایران سے جنگی زبان میں کراؤن پرنس (Crown Prince)گفتگو فرما رہے ہیں۔ سعودی عرب کے زمینی حقائق کی کھوج لگانا ہمارا کام نہیں اور نہ الجزیرہ نے کوئی اپنا تجزیہ پیش کیا بس الجزیرہ میں سعودی کراؤن پرنس نے ایران پر جو الزامات لگائے اس کا فوری جواب ایران کی جانب سے نشر کیا گیا ہے۔

ایرانی کمانڈر انچیف مسٹر قاسمی نے سعودی عرب کے الزامات کو من گھڑت اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا ہے اور جواباً یہ کہا کہ یمن میں سعودی عرب اور ان کے اتحادی طیاروں کی بمباری سے کم ازکم تیس ہزار بچے موت کی آغوش میں جاچکے ہیں اور اس لڑائی سے ایران کا کوئی عملی تعلق نہیں ہے۔ ظاہر ہے یمن اور سعودی جنگ میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا تو صورتحال کشیدہ تر ہوتی جائے گی اور پاکستان کو ایسے موقعے پر اپنی پوزیشن واضح کرنی پڑے گی۔کیونکہ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔

ایرانی وزارت خارجہ نے ابھی ایک اور خطرے کی جانب جو اشارہ کیا وہ لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کا سعودی دورے کے دوران مستعفی ہوجاناہے۔ بقول ایرانی وزارت خارجہ کے یہ عمل مسلم دنیا میں انتشار پھیلانے کی ایک سازش ہے۔ ایسی صورتحال میں اب پاکستان کو ایک غیر جانبدار راہ پر ہی گامزن ہونا ہوگا۔ کیونکہ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے الزامات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اسلام کے سخت گیر قوانین کا اطلاق کا اصل منبع ایرانی انقلاب بنا۔ کیونکہ آیت اللہ خامنائی نے ایرانی انقلاب کو اسلام کا سرچشمہ قرار دیا اور سخت گیر قوانین کا اطلاق کیا گیا۔

بقول الجزیرہ پر نشر کردہ مضمون جو حامد باشی نے تحریر کیا ہے اس میں کراؤن پرنس نے کہا کہ جلد سعودی عرب میں اسلام کا اعتدال پسندانہ رخ دیکھنے میں آئے گا۔ ابھی عورتوں کو کار چلانے کی اجازت ملی ہے اور آنے والا وقت جلد نمایاں تبدیلیاں لائے گا۔ اس مضمون کو پڑھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ثقافتی اور تہذیبی تبدیلیاں سعودی عرب کے در پر دستک دے رہی ہیں۔ یہ مضمون پیر 6 نومبر کو تحریری شکل میں پیش کیا گیا جو انٹرنیٹ پر  دیکھا جاسکتا ہے۔

ہم تو پاک افغان صورتحال پر ہی رو رہے ہیں جب کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال نہایت پر پیچ اور کشیدہ تر ہے۔ لہٰذا پاکستان کو ہر قدم پر دامن بچا کے چلنا پڑے گا اور اپنا ملک دو تین خیالات میں بٹا ہوا ہے اور یہی حال میڈیا کا ہے جو کئی سمت سے گھمایا جا رہا ہے اور مفادات کی آگ ہر میڈیا پر سلگ رہی ہے۔ آج سے قبل تو میڈیا کسی فارن پالیسی کے بنا چل رہا تھا اور اچانک وزارت خارجہ کا قلم دان آیا کہ امریکا کے عیب نمایاں ہوگئے۔ گزشتہ 5 برسوں کے گزرنے سے قبل وہ ایک بے عیب ملک تھا۔ ہر قدم پر ہم قرض کے ہاتھ پھیلائے در پے کھڑے تھے ہماری پالیسی وہی تھی جو امریکا کی فارن پالیسی تھی۔

جب اس سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب تشریف لائے اور امریکا نواز ملکوں نے مل کر ایک جنگی ٹیم تشکیل دی تو نواز شریف اس میں پیش پیش تھے اور پاکستان کو یمن کی جنگ میں جھونک رہے تھے مگر ملک کے دور اندیش اور صاحب بصیرت عسکری اور غیر عسکری افراد نے بروقت قدم اٹھایا اور پاکستان کو مشرق وسطیٰ کا ایندھن بننے سے بچا لیا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے کسی لیڈر نے یمن کے مسئلے پر کوئی آواز نہ اٹھائی ماسوائے عمران خاں کے۔ اس سے پاکستانی لیڈروں کی فکری کم علمی کا اندازہ ہوتا ہے مگر جس قدر جلد سعد الحریری کے استعفیٰ کا اثر ہونا تھا وہ اس لیے نہ ہوا کہ سعودی عرب کے دورے کے درمیان انھوں نے استعفیٰ دیا۔ جس سے لبنان میں سعد الحریری کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی اور وہاں یہ مشہور ہوگیا کہ یہ سعودی عرب کے طرفدار ہیں اپنی کوئی پوزیشن نہیں بلکہ لبنانی لیڈر حسن نصر اللہ اور ایرانی وزارت خارجہ کی پوزیشن علاقے میں مستحکم ہوگئی۔

اس لیے نئی بڑھتی ہوئی جنگ کے امکانات فوری طور پر کم ہوگئے۔ البتہ سعودی عرب کے قریب تر حالات میں بے یقینی کا نمایاں اثر ہے ایک اور خوش آیند بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ کا دورہ ایران ایک خوشگوار حالت کی نوید ہے جس میں مشترکہ اعلامیہ نے اس بارڈر پر جنگی امکانات سے دور ہوگئے ہیں اور دونوں ملک اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں گے جب کہ پاکستانی لیڈر ایران بارڈر سے بے نیاز ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔