ڈونلڈ مودی‘ نریندر ٹرمپ ، پھر اپنا پاکستان

جبار جعفر  جمعـء 10 نومبر 2017

دریائے سندھ پر بنے کوٹری پل کے درمیان ایک کار کا پہیہ نکل گیا۔ اس کے چاروں نٹ جو شاید ڈھیلے رہ گئے تھے راستے میں کہیں گر گئے۔ کارکو دھکا نہیں لگایا جاسکتا تھا واحد طریقہ یہ تھا کہ کرین منگوائی جائے جوکارکو اٹھاکر پل کے نیچے پہنچا دے تاکہ پل کی ٹریفک بحال ہوجائے، اس کے لیے وقت درکار تھا۔ وہاں پر موجود لوگوں میں سے ایک شخص آگے بڑھا جو گدوبندر کے پاگل خانے کی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس نے کارکے مالک کو مشورہ دیا کہ کار میں لگے تین وہیل سے ایک ایک نٹ نکال کر چوتھے وہیل میں لگا دے۔ کار اسٹارٹ کرکے شہر لے جائے اور چار نئے نٹ خرید کر چاروں وہیلز پر ایک ایک نٹ لگا دے ۔ کارکا مالک خوشی سے اچھل پڑا اور بولا ’’یار! میں تو آپ کو پاگل سمجھ رہا تھا‘‘ پاگل نے جواب دیا۔ ’’وہ تو میں ہوں، مگر معاف کیجیے احمق نہیں ہوں۔‘‘

سیانوں نے کہا ہے عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔ متعصب اور متکبر انسان کو ٹھوکر کھانے سے بھی نہیں آتی، کیونکہ متعصب انسان عقل سے پیدل ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جوکہے وہی صحیح باقی سب غلط۔ مثلاً دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم نریندر مودی جب کہ متکبر انسان کی عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے اس کے منہ سے جو بھی نکل جائے وہی صحیح باقی سب غلط۔کیا سپرپاور امریکا نہیں تھا؟ جو ویت نام میں اس وقت پھنسا جب فرانس وہاں سے جوتیوں سے توبہ کرتا ہوا نکل رہا تھا ۔

عقل نہیں آئی دوبارہ افغانستان میں اس وقت پھنسا جب سپرپاور روس کانوں کو ہاتھ لگاتا، گالوں پر طمانچے مارتا بھاگ رہا تھا، اب تک پھنسا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر افغانستان میں کیا ہے جو ماضی بعید میں برطانیہ ، ماضی قریب میں روس اور امریکا افغانستان کے چوہے دان میں پھنس چکے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف افغانستان کے قیمتی اور نایاب معدنی وسائل کی کشش اور دوسری طرف دنیا کا انتہائی پسماندہ علاقہ اور انتہائی مفلس اور جاہل عوام ہیں جو ان کو لوٹ مار پر اکساتے ہیں۔

سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ دنیا آج تیسری جنگ عظیم کو جتنا قریب اب دیکھ رہی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ مسئلہ جنوبی امریکا کے سمندر میں چین کے بحری بیڑوں کی مٹرگشت کا نہیں ہے بلکہ جنوبی چین کے سمندر میں امریکی بحری بیڑوں کی تھانیداری کا ہے۔ علاوہ ازیں بحر ہند میں بھارتی بحری بیڑوں کی چوکیداری اور جنوبی ایشیا میں بھارت سے پاکستان کی تابعداری کا ہے۔ اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس کا نیا نویلا حلیف بھارت چین کے مقابل سپرپاور جیسا کردار ادا کرے۔ جس طرح ماضی میں چین کے مقابل ۔ فارموسا (موجودہ جزیرہ تائیوان) نے ادا کیا تھا۔ چین اس خطے میں امریکی موجودگی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ جنوبی چین کے سمندر میں مصنوعی جزیرے تعمیر کر رہا ہے تاکہ بحری اڈے بنائے۔ سمندر پر بحری جنگی جہاز اتارے جا رہے ہیں اور سطح سمندر سے نیچے ایٹمی آبدوزیں دوڑائی جا رہی ہیں۔

پاکستان سے پہلا سودا ہی آٹھ ایٹمی آبدوزوں کا ہوا ہے۔ امریکا اپنی ساٹھ فیصد طاقت جنوبی چین کے سمندر میں جمع کر رہا ہے۔ بھارت کے شمال میں کوہ ہمالیہ پر سکم کے مسئلے پر چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ لگتا ہے 1962 کی تاریخ دہرائی جائے گی جب چینی فوجوں نے بھارتی فوجوں کو تبت سے بھگا کر آسام تک لاکر چھوڑ گئے تھے۔ پورے جنوبی ایشیا، جنوبی چین کے سمندر سے لے کر بحرہند تک بحری جنگی مشقیں اور کوہ ہمالیہ سے لے کر ماسکو تک بڑی فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ کیوں نہ ہو سالانہ دو کھرب ڈالر کا تجارتی سامان اسی بحری گزرگاہ سے مشرق وسطیٰ سے ہوتا ہوا یورپ اور شمالی افریقہ کی منڈیوں کو جاتا ہے۔ سطح سمندر پر تجارتی بحری جہاز رواں دواں ہیں اور سطح سمندر سے نیچے چین اور پاکستان کی ایٹمی آبدوزیں۔

حالات وواقعات کا اپنے زاویہ نظر سے جائزہ لے کر اپنا نقطہ نظر پوری دیانت داری سے واضح کردیتا ہوں۔ اختلاف رائے کا احترام برحق لیکن صحیح غلط کا فیصلہ وقت کا قاضی ہی کرتا ہے۔ میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے دور دور تک تیسری جنگ عظیم نظر نہیں آرہی ہے کیوں؟

1۔ اس وقت چین کیل کانٹے سے لیس تازہ دم سپرپاور ہے، جب کہ امریکا بے مقصد جنگیں لڑ لڑ کر زخم خوردہ نادیدہ دشمنوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر نڈھال، عمر رسیدہ اور کمر خمیدہ سپرپاور ہے۔ 2۔ چین مہلک ہتھیاروں کا نہیں بلکہ اشیائے صرف کا سوداگر ہے۔ 3۔ 70 سالہ تاریخ بتاتی ہے اس نے کسی کمزور ملک پر قبضہ نہیں کیا۔ خود اس کا ایک جزیرہ تائیوان (سابقہ فارموسا) آج بھی امریکا کے زیر اثر ہے۔ 4۔ ساری مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں محفوظ خطے کی چاہت میں ہیں اپنے سرمائے اور پروڈکشن یونٹس کے ساتھ چین میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔5۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا قرض خواہ چین اور قرض دار امریکا ہے۔ 6۔مختصراً چینی فروژن ڈپلومیسی کی موجد، سب سے محبت کسی سے نفرت نہیں قائل، جنگ سے نفرت لیکن اپنے ملکی دفاع سے غفلت نہیں جیسے بیانیے کی علم بردار ملک ہے۔ جس خطے میں چین ہو اس خطے میں جنگ ؟ ناممکن ۔

تیسری جنگ عظیم برپا کرنے، جاری رکھنے اور سمیٹنے کے لیے چرچل (برطانیہ)، روز ویلٹ(امریکا) اور اسٹالن (روس) جیسے سیاسی حکمرانوں کی ضرورت پڑتی ہے آج کے ڈونلڈ ٹرمپ (امریکا)، نریندر مودی (بھارت) جیسے عقل سے پیدل متعصب سیاسی حکمرانوں کی نہیں۔ متکبر اور متعصب انسان کی فکر میں گہرائی ہوتی ہے نہ نظر میں وسعت ۔ بطور ثبوت افغانستان میں امریکا کی اور کشمیر میں بھارت کی ایک ایک سپرکلاس حماقت کا احوال پیش کروں گا۔

A۔ ماضی میں جب امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا تو ساتھ ساتھ یہ بھی طے کیا گیا کہ جدید ترین اسلحے سے لیس فوجی تربیت یافتہ افغان نوجوانوں پر مشتمل ایک افغان سیکیورٹی فورس تشکیل دی جائے گی جو طالبان کو اوقات میں رکھنے اور ملک میں امن قائم رکھنے کی ذمے دار ہوگی۔ اس کے علاوہ افغانستان میں چند ہزار امریکی فوجی بھی موجود رہیں گے جو افغان سیکیورٹی فورس جوانوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور ڈومور (Do More) کا پہاڑا بھی پڑھتے رہیں گے۔جس پر من و عن عمل کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا تین لاکھ افغان سیکیورٹی فورس میں شامل افغان نوجوان جو مسلح اور فوجی تربیت یافتہ ہیں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کرسکتے ہیں؟ کیا طالبان سیکیورٹی فورس کے افغان نوجوان ہم وطن، ہم مذہب اور ہم قبیلہ نہیں ہیں؟ کیا وہ افغانی نہیں فرنگی ہیں؟ کیا غیر ملکی حملہ آور نہیں؟ اگر طالبان ان کے چاچے مامے نہیں ہیں تو باپ دادا تو ہوسکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان کے بے تحاشا نایاب معدنی وسائل پر کون قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ کارپٹ بمباری، شہروں کی بربادی اور مہاجرین کی دربدری کا کون ذمے دار ہے طالبان؟ کہیں غیر سرکاری طالبان کے ساتھ ساتھ سرکاری طالبان کی تشکیل تو نہیں ہوگئی؟ آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ پچھلے مہینے غزنی کے قریب جیل سے افغان سیکیورٹی فورس اور پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گرد ساڑھے تین سو طالبان چھڑا کر لے گئے جن میں 20 طالبان رہنما شامل تھے۔

B۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے کشمیر کے ڈوگرہ راجہ سے ساز بازکرکے کشمیر میں بھارتی فوجیں اتار دیں۔ دوسری طرف شیخ عبداللہ کی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی اور مکمل خودمختاری دے دی۔ مقصد کشمیری عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ ڈوگرہ راج سے آزاد ہیں اور خودمختار ہیں جس میں وہ کامیاب رہے۔ مسئلہ کشمیر رفتہ رفتہ سردخانے کی نذر ہوگیا۔ 70 سال گزر گئے۔

پچھلے سال ہندوتوا کے حامی، اسلام دشمن، گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمے دار، RSS کے پیروکار نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ آتے ہی شوشہ چھوڑا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے ساتھ شامل کردیا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ بھارت کے دیگر صوبوں کے لوگ کشمیر پر ہلہ بول دیں اور وہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے ایک نوجوان برہان وانی نے کشمیر کے نوجوانوں کو للکارا جس کو بھارتی فوج نے گولی ماردی۔ اس کا جنازہ لے کر کشمیری نوجوان سڑکوں پر آگئے ایک سال گزر چکا احتجاج جاری ہے جلسے جلوس نکل رہے ہیں درجنوں پیلٹ گن کے چھروں سے اندھے ہوچکے۔ سو سے زیادہ شہید ہوچکے ہیں۔ جلسے، جلوسوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں، شہیدوں کی نماز جنازہ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ادا کی جا رہی ہے، کشمیر کی مکمل آزادی تک اور یہ اوپن ایئر ریفرنڈم دنیا دیکھتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔