عدلیہ کے وقار پر آنچ نہیں آنی چاہیے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 11 نومبر 2017
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ بھی ایسے ہی فیصلوں میں شامل ہے۔ فوٹو: فائل

ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ بھی ایسے ہی فیصلوں میں شامل ہے۔ فوٹو: فائل

ان دنوں عدلیہ کے بعض فیصلوں کے خلاف متاثرہ فریق کی جانب سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر شدید نوعیت کی تنقید کی جارہی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ یہ عجب روایت چلی آ رہی ہے کہ اگر کسی کے حق میں فیصلہ آ جائے تو وہ عدالتی فیصلوں پر رطب اللسان ہوتا اور ہارنے والافریق اعتراضات کی پٹاری کھول دیتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر کھلے عام عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاسی مقدمات کے فیصلوں کی تاریخ کچھ مثالی نہیں رہی۔ماضی میں بعض ایسے عدالتی فیصلے آئے جن کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو جائز قرار دینے اور پھر جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو آئینی سند دینے تک کے فیصلے پاکستان کی تاریخ کا کوئی شاندار حصہ نہیں ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ بھی ایسے ہی فیصلوں میں شامل ہے۔بہرحال اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ عدلیہ کے ادارے کا شمار قابل احترام اداروں میں ہوتا ہے۔ کسی ملک کے استحکام اور ریاستی سسٹم کی مضبوطی عدلیہ کے مثالی کردار کی مرہون منت ہوتی ہے۔

جہاں عدلیہ کا ادارہ کمزور پڑ جائے یا بے توقیر ہو جائے اور عوام کی جانب سے اس پر عدم اعتماد کا اظہار عام ہونے لگے تو ایسے ممالک کی بقا اور سلامتی کا خطرے میں پڑنا اچنبھے کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں عدلیہ نے ملکی وقار کو بلند کرنے ، اداروں کو باہم ٹکراؤ سے بچانے اور انھیں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ یقیناً قابل ستائش ہیں۔عدالتی فیصلوں پرقانون کے دائرے میں رہ کر تنقید اپنی جگہ مگر عدلیہ کے وقار پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کے دوران بالکل جائز طور پر یہ سوال اٹھایا کہ عدلیہ کے فیصلے پر عدالت کے باہر جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ قابل ستائش ہے؟ کیا اس طریقے سے آئین و قانون کو نشانہ بنانا حب الوطنی ہے؟ عدلیہ کے تحمل اور برداشت کی داد دی جائے‘ کسی کے کچھ کہنے سے عدلیہ کی شان اور انصاف میں کمی نہیں آئے گی۔

عدلیہ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو اسے یہ جنگ قانون کے اندر ہی رہتے ہوئے لڑنی چاہیے نہ کہ اس کے خلاف غیرآئینی اور غیر جمہوری راستہ اختیار کیا جائے۔ عدلیہ کے فیصلوں پرکھلے عام تنقید اس کے وقار کے منافی اور اسے بے توقیر کرنے کے مترادف ہے۔ عدلیہ بھی یہ کہہ چکی ہے کہ ججوں کا بھی احتساب ضروری ہے وہ کوئی مقدس گائے یا بیل نہیں لیکن احتساب کرتے وقت عدلیہ کی خود مختاری برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی ایسا بیان یا اقدام نہ کیا جائے جس سے عدلیہ کے ادارے کا احترام مجروح ہوتا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔