ممتاز دانشور محمد ابراہیم جویو کی رحلت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 11 نومبر 2017
ابراہیم جویو سندھ کے ضلع دادو کے تعلقہ کوٹری کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’آباد‘ میں 13 اگست 1915کو پیدا ہوئے،فوٹو: فائل

ابراہیم جویو سندھ کے ضلع دادو کے تعلقہ کوٹری کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’آباد‘ میں 13 اگست 1915کو پیدا ہوئے،فوٹو: فائل

ادب و دانش کی دنیا کے قیمتی موتی ایک ایک کرکے ہم سے بچھڑتے جارہے ہیں۔ جمعرات کو سندھ کے ماہر تعلیم اور اکیڈمی آف لیٹرز کے ایوارڈ یافتہ سینئر دانشور محمد ابراہیم جویو 102 برس کی عمر میں علالت کے باعث انتقال کرگئے۔ ابراہیم جویو کی رحلت ایک عظیم نقصان ہے، انھیں عالمی صورتحال، سوشلزم، مذہب، سیاست اور تعلیم سمیت کئی شعبہ جات میں عبور حاصل تھا۔ انھیں ایک صدی کی آواز بھی کہا جاتا تھا۔

ابراہیم جویو سندھ کے ضلع دادو کے تعلقہ کوٹری کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’آباد‘ میں انتہائی غریب خاندان میں 13 اگست 1915کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم انھوں نے گاؤں میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ ضلع دادو کے چھوٹے شہر ’سن‘ کے ایک اسکول میں داخل ہوئے، جہاں سے انھوں نے  مزید تین درجے تعلیم کی۔ ابراہیم جویو نے 1946 میں ’’سندھ بچاؤ، برصغیر بچاؤ‘‘ نامی کتاب انگریزی میں لکھی تھی، جس کی پاداش میں انھیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کتاب کو ان کی سب سے  زیادہ مقبول کتاب سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کتاب میں انھوں نے نہ صرف سندھ کا روشن خیال چہرہ پیش کیا، بلکہ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی سیاست کے نتیجے میں سندھ کو پہنچنے والے نقصان کا نقشہ بھی کھینچا۔ ابراہیم جویو نے فرانسیسی انقلاب، ترقی پسند ادب، تاریخ، فلسفہ، سیاست، ادب، انسانی حقوق اور سماجی مسائل پر تقریباً پچاس کتابیں لکھیں اور ترجمہ کیں، جب کہ 100 کے قریب مقالات بھی تحریر کیے۔ محمد ابراہیم جویو سندھ کے لیے ایک علمی سرمایہ تھے، ایسے انسان اقوام میں صدیوں میں پیدا ہوتے  ہیں، ابراہیم جویو نے سندھ میں ترقی پسند ادب کو روشناس کرایا، وہ ایک عظیم دانشور تھے جن کے  انتقال سے سندھ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ ابراہیم جویو کو اپنی تاریخ بدل دینے والے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا، کیوں کہ انھوں نے 102 سال میں وہ اعزاز حاصل کیا جو زیادہ تر زندہ انسانوں کو اپنی زندگی میں نہیں ملتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔