خرابی کی جڑ

اکرام سہگل  ہفتہ 11 نومبر 2017

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح ایک مسلم اکثریتی ریاست میں ہندوستانی مسلمانوں کو مذہبی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے آرزومند تھے۔ پاکستان،جو جغرافیائی طور پر غیر منقسم ہندوستان کے کنارے پر واقع تھا، اُسے بہت کچھ تو برطانوی راج سے وراثت میں ملا، بنیادی ڈھانچہ موجود نہ ہونے کے باعث اِس کے انتظامی معاملات چلانا انتہائی دشوار تھا اور یوںکمزور اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

پاکستانی معاشرے میں روایتی سماجی نظام کی خصوصیات، جیسے ذات پات کی تقسیم، برادری اور قبائلی نظام،موجود رہیں، جن کاانحصار جدید عدالتی نظام کے بجائے جرگہ، پنچائیت اور غیرت سے متعلق قوانین جیسی قدیم متوازی روایات پر تھا۔جاگیردارانہ سوچ کے تحت  کسانوں اور دیہی آبادی کو  زمیندار کی ملکیت سمجھنا بھی ایک گمبھیر مسئلہ رہا۔ان عوامل کے باعث سات عشروں بعد بھی قائد کا خواب تعبیر سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔اچھی طرزِ حکمرانی اور سماجی ترقی کے ایک دوسرے پر انحصار کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے نظام کی کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں اور اس کے اسباب سے پردہ اٹھتا ہے۔ یہاں گورننس سے مراد وہ ڈھانچہ اور سرگرمیاں ہیں، جو احتساب، شفافیت، قانون کی حکمرانی، استحکام، مساوات،عوام کی ترقیاتی عمل میں بھرپور شمولیت اور انھیں بااختیار بنانے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پینے کا صاف پانی، بجلی اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ایک جدید ریاست کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ ریاست ان ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے ادارے تشکیل دیتی اور انھیں مضبوط کرتی ہے۔ پاکستان کو بلاشبہ گورننس اور سماجی ترقی، دونوں شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے، مگر  ہمارے ہاں رائج فرسودہ رسومات اور روایات جدید ریاست کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہاں جدید سے مراد ایسی ریاست ہے، جس کی باگ ڈور منتخب حکومت سنبھالے اور جہاں تمام ادارے جمہوری اصولوںکے تحت چلائے جائیں۔

ریاست اور اس کے اداروں کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کے لیے جمہوری فکر کا حامل ہونا،ملازمتوںکے یکساں مواقع اور مساوات بنیادی شرائط ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صورت حال اِس کے برعکس ہے۔ آئینی سیٹ اپ کے تحت اصلاحات گورننس کو بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔ عالمگیریت کی تیزی سے بڑھتی اثرپذیری کے پیش نظر، ڈاکٹر عشرت حسین کی قومی کمیشن (NCGR)  کے تحت مجوزہ اصلاحات کو نافذ کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

پالیسی اور قانون سازی کا ادارہ بننے کے بجائے بدقسمتی سے پارلیمان ’’ڈبیٹ کلب‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے، جس کے باعث فیصلہ سازی میں اس کا کردار محدود تر ہوگیا ہے۔جب تک پارلیمان کی نشستوں پر وہ سیاسی اشرافیہ  براجمان رہے گی، جو زمین داروں، مذہبی شخصیات اور قبائلی سرداروں پر مشتمل ہے، تو قبائلی اور جاگیردارانہ عناصر نظام کی حقیقی روح مجروح کرتے رہیں گے۔ یہ جاگیردارانہ اور قبائلی سوچ فقط بڑے زمین داروں تک محدود نہیں، بلکہ میاں نواز شریف جیسے صنعت کاروں(جنھیں ہم جدید فیوڈل کہہ سکتے ہیں) میں بھی پائی جاتی ہے۔ان کا حصول اقتدار کا طریقہ، خاندانوں اور برداریوں کی سیاست اس موقف کی تائید کے لیے کافی ہے۔ماسوائے جماعت اسلامی کے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ذاتی ملکیت کے طور پر چلائی جاتی ہیں۔

ہمارے انتخابی نظام میں فقط دولت مند ہی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے اقتدار میں پہنچنے والا پہلے اپنے اخراجات پورے کرنے کا اہتمام کرتا ہے اور پھرآیندہ انتخابات میںصرف ہونے والے سرمائے کے انتظام میں لگ جاتا ہے۔ ہمارے فیوڈل سسٹم نے First-past-the-post ووٹنگ نظام کواپنے کامیاب تسلسل کے لیے بطور جمہوری فارمولا اختیار کر رکھا ہے۔ یہ سسٹم فقط سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کے حق میں جاتا ہے،چاہے جیتنے اور ہارنے والوں کو حاصل شدہ ووٹوں کا فرق کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ انتخابی حلقے میں اکثریت اور مقبولیت پر ووٹوں کی اکثریت کو فوقیت دیتا ہے۔ یوں ایک طاقتور مگر متحد اقلیت بڑی سہولت سے آبادی کی منتشر اکثریت کی حاکم بنی بیٹھی ہے۔

جیسے 20 کروڑ کی آبادی میں تقریباً سوا کروڑ  ووٹ لے کر میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے دعوے دار ہیں، انھیں حاصل شدہ ووٹ آبادی کا محض ساڑھے چھ فیصد بنتے ہیں۔ جب حکمرانوں کے سیاسی فیصلے مرکزی اور ذاتی نوعیت کے ہوں، تو اقلیتی و عوامی طبقات کی نمایندگی کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔یہ نظام اس طرز پر تشکیل دیا گیا ہے کہ مختلف اقلیتی طبقات طاقت اور اقتدار کے لیے باہم دست وگریباں رہتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے منتخب نمایندوں کو ووٹنگ کے عمل میں اپنی پارٹی لیڈر کے احکامات کا پابند کرنا دراصل صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں کو ربڑ اسٹمپ بنانے کے مترادف ہے ۔یہ جمہوریت کے پردے میں چھپی آمریت ہے۔

آئین کا آرٹیکل140  اے جس بلدیاتی نظام کا نقشہ فراہم کرتا ہے، بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد کبھی وہ بلدیاتی حکومتیں عملی شکل اختیار نہیں کرسکیں۔یہ اختیارات کا سب سے نچلا درجہ ہے، جہاں عوام ریاست کی عملداری کے گواہ بن کر اور اس میں شریک ہو کر اپنے مسائل حل کروا سکتے ہیں۔

ایوب خان کا متعارف کردہ بنیادی جمہوریت کا نظام اِس ضمن میں پہلی ناکام کوشش ثابت ہوا۔ سبب یہ ہے کہ ُاس کا مقصد عوام کو سہولیات اور خدمات کی فراہمی کے بجائے ایسے انتخاب کنندگان کا حلقہ (الیکٹرال کالج) تشکیل دینا تھا، جو ضرورت پڑنے پر ان کے حق حکمرانی کی توثیق کردے۔ اسی طرح ضیا الحق کے بلدیاتی نظام کا مقصد اپنی حکمرانی کو قانونی حیثیت دینا تھا۔ہاں، 2000ء میں پرویز مشرف کا متعارف کر دہ مقامی حکومتوں کا نظام اس ضمن میں موثر ترین کوشش تھی، کیونکہ اس میں مقامی اداروں کی مالی خودمختاری کا اہتمام کیا گیا تھا۔

مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جو اسٹیک ہولڈرز کو عوام کی سطح پراپنی بہترین صلاحیتوں کی شناخت و اظہار کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کراچی کے سابق ناظم، مصطفی کمال نے اسی نظام کے ذریعے کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ پرویز مشرف کے متعارف کردہ نظام کا ایک مقصد سیاست میں غریب اور متوسط طبقے سے  تعلق رکھنے والے ایسے نوجوانوں کی ایک کھیپ تشکیل دینا تھا،جو روایتی سیاسی پس منظر نہ رکھتے ہون اور جو سیاست میں موجودہ جاگیردار اشرافیہ کا متبادل ثابت ہوسکیں۔

مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی یہ نظام بھی رخصت ہوا۔دوسری طرف جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی سول حکومتوں نے، اپنی طاقت کم ہونے کے خوف سے، کبھی مقامی حکومتوں کا نظام نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ذرا اُس شرمناک’’گراس روٹ لیول‘‘ کی جمہوریت کا اندازہ لگائیں، ن لیگ پنجاب اور بلوچستان، پی پی پی سندھ اور تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں جس کی دعوے دار ہیں۔

انصاف کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔ عدالتوں اور انصاف تک عام آدمی کی رسائی نہ صرف موثر حکومت کے لیے، بلکہ سماجی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ عمل عوام کو ان کی املاک، جائیداد کے معاہدوں اور ان کی خلاف ورزی جیسی صورتوں میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ماتحت عدالتوں میں انصاف کی فراہمی سست روی اور بدعنوانی کی شکار ہے، اس سطح پر یہ نظام عوام کی مالی استعداد سے باہر بھی ہے وہیں غیر مؤثر بھی ہوچکا۔ غریب افراد کے لیے اپنا مقدمہ لے کر عدالت جانا ڈراؤنا خواب ہے اور اگر وہ تھوڑی ہمت کرکے یہ کر گزریں، تو فیصلے آنے میں زندگیاں گزر جاتی ہیں۔ کچھ فیصلے یوں غیرموثر ثابت ہوتے ہیں کہ ان کے اطلاق کے لیے ادارے موجود نہیں۔ اور اگر ہیں بھی تو وہ پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں امیراور غریب کے لیے قانون کے اطلاق کا طریقہ مختلف رہاہے، مگر یہ سلسلہ تھم سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو پیش نظر رکھیں، جس میں انھیں غلط بیانی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ مریم نوازکو بھی چاہیے کہ اپنی دولت اور شخصیت کے بل پر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوششیں ترک اور عوام کے جذبات سے کھیلنا بند کریں۔ یہاں سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب کے الفاظ دہرانا چاہوں گا، جو انھوں نے بدعنوانی کے خلاف ہونے والی حالیہ کارروائیوں میں ولید بن طلال سمیت بااثر شہزادوں،وزراء اور تاجروں کی گرفتاریوں کے تناظر میں کہے۔ ان کے بقول،’’مشکوک افراد کا عہدہ اور اثر رسوخ قانون کی عمل داری میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے گا۔‘‘ پاکستان میں موثرگورننس کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت پسندوں کے بھیس میں موجود جاگیرداروں کوفی الفور احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔