فاروق ستار، مصطفی کمال اور کراچی

مزمل سہروردی  ہفتہ 11 نومبر 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

بچپن سے یہی سنا ہے جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دوسرا کرے تو بیڑا ہی غرق کرے۔ پاکستان کی سیاست کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ ہمارے سیاسی فیصلے بھی غیر سیاسی قوتیں کرتی ہیں۔ اسی لیے نہ تو وہ صحیح ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی منطق ہوتی ہے۔ سیاست میں نہ سب کچھ صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی سب کچھ غلط ہو تا ہے۔ چیزیں صحیح اور غلط کے درمیان رہتی ہیں۔ یہی سیاست کا حسن ہے۔

کراچی کے فیصلہ کرنے والوں کو بلاشبہ بے پناہ کامیابیاں ملی ہیں۔ وہ کراچی میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔انھوں نے کراچی کو الطا ف حسین کے قبضہ سے چھڑا لیا ہے۔ الطاف حسین کو مائنس بھی کر لیا گیا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ بھتہ مافیا کا راج ختم ہوا۔ ہڑتالیں ختم ہوئیں۔ سیاسی ماحول آزاد ہوا۔ اس کام کے لیے بہت سے آؤٹ آف باکس کام کیے گئے۔ لیکن ان کے نتائج مثبت آئے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی میں اسٹیبلشمنٹ نے کامیابی کی ایک خوبصورت داستان رقم کی ہے۔ اس کام کے لیے انھیں محدود سیاسی تعاون بھی حاصل رہا۔ رینجرز کے حوالے سے سیاسی تنازعہ بھی سامنے آیا لیکن حل ہوتا رہا۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ثابت قدم تھی۔ اسی ثابت قدمی نے نتائج دیے ہیں۔

اس دوران الطاف حسین کی دہشت اور سیاسی بت کو توڑنے پر بھی کام ہوا ہے۔ یہ کام ابھی ادھورا ہے۔ اس دوران مصطفیٰ کمال نے بہت مدد کی ہے۔ انھوں نے الطاف حسین کی دہشت کو توڑنے کی طرف پہلا قدم اٹھایا۔ خوف کو ختم کیا۔ الطاف حسین کو للکارا۔ جو اس ماحول میں بہت ضروری تھا تا کہ عام آدمی کو حوصلہ دیا جا سکے۔ میں اس ضمن میں مصطفیٰ کمال کی بہادری کا معتقد ہوں۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ تھے۔

یہ درست ہے کہ 22 اگست کو الطاف حسین نے تمام حدود عبور کر دیں۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ بلی تھیلی سے باہر آگئی۔ اس کے بعد الطاف حسین کے بچوں کے پاس بھی ان سے علیحدگی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصطفیٰ کمال نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ فاروق ستار اور ساتھیوں کے لیے الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان ممکن ہوا۔ اگر مصطفیٰ کمال نے ماحول نہ بنایا ہوتا تو فاروق ستار اور ساتھیوں کے لیے علیحدگی ممکن نہ ہوتی۔

لیکن یہ سب اپنی جگہ۔مصطفیٰ کمال کی قربانیاں اپنی جگہ۔ تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کی جگہ نہیں لے سکے۔الطاف حسین سے سچی جھوٹی علیحدگی کے باوجود کراچی کی بڑی سیاسی قوت اب بھی ایم کیو ایم ہے۔ فاورق ستار اور ان کے ساتھی ووٹ بینک کو سنبھالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک کم ہوا ہے۔ لیکن اتنا کم نہیں ہوا کہ کہ یہ کہا جا سکے کہ وہ ختم ہو گئے ہیں۔ اتنا بھی کم نہیں ہوا کہ وہ انتخابی گیم سے آؤٹ ہو جائیں۔ وہ گیم میں ان ہیں۔

دوسری طرف اگر سیاسی صورتحال یہی رہتی ہے تو اگلے انتخابات میں مصطفیٰ کمال کا سیاسی مستقبل خطرہ میں ہے۔ اب تک کی صورتحال کے مطابق فاروق ستار اور مصطفیٰٰ کمال کے مقابلے میں فاروق ستار کو واضع برتری حاصل ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے مقابلے میں پاک سرزمین پارٹی کمزور ہے۔ میرے خیال میں یہی مسئلہ ایسا ہے جو حل نہیں ہو رہا۔ عوام الطاف حسین سے تو بدظن نظر آرہے ہیں لیکن مصطفیٰ کمال کے مداح نہیں بن سکے ہیں۔ وہ مہاجروں کے لیڈر نہیں بن سکے ہیں۔

لیکن کیا اس صورتحال کا حل یہ ہے کہ انھیں زبردستی لیڈر بنا دیا جائے۔ کیا اس کا حل یہ ہے کہ ایم کیو ایم ختم کر دی جائے۔ کیا اس کا حل یہ ہے کہ فاروق ستار کو مصطفیٰ کمال کے ماتحت کر دیا جائے۔ اگر مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو سیاسی میدان میں تسخیر نہیں کر سکے تو کیا  انھیں اب جیت پلیٹ میں ڈال کر دے دی جائے۔ جن کو وہ سیاسی میدان میں نہیں ہرا سکے۔ انھیں ڈرائنگ روم میں ان کے سامنے سرنڈر کروا دیا جائے۔ کیا یہ درست سیاسی حکمت عملی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔

آپ دیکھ لیں کہ فاروق ستار نے ڈرائنگ روم میں سب کچھ مان بھی لیا۔ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم ختم بھی کر دی۔ لیکن بات چل نہیں سکی۔ کیونکہ سیاسی فیصلے ایسے نہیں ہوتے۔ اگر دونوں جماعتوں کا اتحاد یا ادغام مقصود ہی تھا تو اس کا طریقہ نہایت غلط تھا۔ ایک دن پہلے تو ایم کیو ایم نے بھر پور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ چند دن پہلے تو پاک سرزمین نے ڈپٹی مئیر کی وکٹ اڑائی تھی۔ چنددن پہلے تو تلخی اتنی تھی کہ فاروق ستار کہہ رہے تھے کہ ان کی وکٹ اڑائی گئی تو وہ اجتماعی استعفیٰ دے دیں گے۔ اور اس دھمکی کے بعد بھی وکٹ اڑ گئی۔

ایک ایسے ماحول میں یکدم اگر اتحاد اور ادغام کا اعلان کیا جائے تو کون پاگل اس پر یقین کرے گا۔ کون نہیں کہے گا کہ یہ گن پوائنٹ پر ہو رہا ہے۔ جب فاروق ستار کہ رہے تھے کہ میں دباؤ میں ہوں تو یہ قدم انتہائی غیر سیاسی تھا۔ غلط تھا۔ اس کی کوئی سیاسی ساکھ ہونی ہی نہیں تھی۔ ہمارے ادارے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ ڈنڈے کے زور پر امن قائم کر سکتے ہیں۔ ڈنڈے سے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ ملک کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن سیاسی فیصلے نہیں کر سکتے۔ سیاسی فیصلے ڈنڈے نہیں سیاسی انداز میں ہی ہو سکتے ہیں جو اداروں کو نہیں آتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے ستر سال سے سیاسی فیصلے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور ستر سال سے انھیں نا کامی ہو رہی ہے۔ لیکن انھیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے انھیں سیاسی تربیت لینا ہو گی۔

بظاہر جو ڈیل فاروق ستار کے گھاٹے میں تھی۔ اس نے ان کی سیاست کو چار چاند لگا دئے ہیں۔ وہ مجرم سے ہیرو بن گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ ایسی بند گلی میں پہنچ گئے تھے جہاں سے ان کے پاس سیاست سے کنارہ کشی کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔انھیں اپنی سیاست ختم ہوتی نظر آرہی تھی۔ انھوں نے سرنڈر کر دیا ہوا تھا۔ انھیں علم تھا کہ ان کی سیاسی ساکھ ختم ہو گئی ہے۔ اب بھاگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ مصطفیٰ کمال کے ماتحت کام نہیں کر سکتے تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ ان کے کئی ساتھی بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ جو کہا جا رہا تھا وہ ممکن نہیں تھا۔ جو مانگا جا رہا تھاوہ دیا نہیں جا سکتا تھا۔

شائد فاروق ستار کو بھی نہیں علم تھا کہ یہ میدان جنگ نہیں سیاست کا میدان ہے۔ یہاں ہار کر بھی جیت جاتے ہیں اور جیت کر بھی ہار جاتے ہیں۔ جب وہ اپنی ہار کا اعلان کر رہے تھے انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ جیت رہے ہیں۔ وہ جو بظاہر جیت رہا ہے دراصل وہ ہار رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فاروق ستار کا سیاست سے کنارہ کشی کا نہ تو علان ڈرامہ تھا اور نہ ہی واپسی کا اعلا ن ڈرامہ تھا۔ سب سچا اور اصلی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ الطاف حسین ایسا ڈرامہ کرتے تھے۔ لیکن فارو ق ستار ڈرامہ نہیں کر رہے تھے۔ وہ ہار چکے تھے۔ اب کنارہ کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

لیکن کسے معلوم تھا کہ سیاست سے کنارہ کشی کاا علان سیاست کے بند دروازے کھول دے گا۔ انھیں ہیرو سے زیرو کر دے گا۔ ایک ہی چال میں جماعت کے اندر اور باہر کے مخالفین چاروں شانے چت ہو جائیں گے۔ مجھے مصطفیٰ کمال سے ہمدردی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز کا پھل فوری مل جائے۔ انھیں محنت جاری رکھنی چاہیے۔ شائد اگلا انتخاب ان کا نہیں ہے۔ انھیں صبر کرنا ہو گا۔ ان کے دوست ان کو جماعت بنا کر دے سکتے ہیں۔ وسائل دے سکتے ہیں۔ لوگوں کو شامل کروا سکتے ہیں۔ لیکن ووٹ بینک عوامی طاقت کے لیے انھیں ابھی اور محنت کرنا ہوگی۔ ایسے شارٹ کٹ نقصان دہ ہونگے جیسے کہ یہ کوشش نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ بس یہی سیاست ہے۔ یہی حقیقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔