نمونیا، جان لیوا مگر قابل علاج

شبینہ فراز  اتوار 12 نومبر 2017
آج بھی ہمارے بچے نمونیا جیسی بیماری میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

آج بھی ہمارے بچے نمونیا جیسی بیماری میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

بارہ نومبر کو دنیا بھر میں نمونیے کا دن منایا جاتا ہے اور دنیا کی توجہ چھوٹے بچوں میں پائی جانے والی اس جان لیوا بیماری کی طرف دلائی جاتی ہے جس پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ پانچ سال سے کم عمر جتنے بچوں کی موت واقع ہوتی ہے ان میں سے 30 فی صد اموات کی وجہ نمونیے کی بیماری ہے، جب کہ ایک سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں سے 33 فی صد کی وجہ نمونیا ہوتا ہے۔

ایک ایسے دور میں جہاں انسان نے خلا میں قدم رکھ دیا ہے اور دوسرے سیاروں پر بستیاں بسانے کی بات ہورہی ہے وہاں یہ حقیقت انتہائی دل خراش اور تکلیف دہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے نمونیا جیسی بیماری میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں جس سے بہ آسانی حفاطتی ٹیکا لگانے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

جن دس بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں ان ٹیکوں میں نمونیا سے بچاؤ کا بھی ٹیکا ہے اور اہم بات یہ کہ حکومت پاکستان یہ ویکسین لوگوں کو مفت فراہم کر رہی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ اس کے باوجود اپنے بچوں کو یہ ٹیکا نہیں لگاتے۔ آگہی اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہ نہیں جان پاتے کہ وہ اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں مہلک بیماریوں کے خطرات میں دھکیل رہے ہیں۔

ڈاکٹر درثمین اکرم سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں میں شعور کی کمی ہے۔ وہ بچوں کو ٹیکے نہیں لگواتے جس کے باعث کم عمر بچوں کی شرح اموات اتنی زیادہ ہے۔ سردیوں کا موسم شروع ہورہا ہے۔ نمونیا کا خطرہ اسی موسم میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کی شدت میں پسلیاں چلنے لگتی ہیں۔ بچہ کچھ کھا پی نہیں سکتا کیوںکہ اس کی ساری توانائی سانس لینے میں صرف ہورہی ہوتی ہے۔ بخار بھی ہورہا ہوتا ہے۔ آکسیجن کی کمی سے پھیپھڑے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ دماغ کو آکسیجن نہیں پہنچتی تو دماغ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غربت اور غذائیت سے بچوں کی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔نمونیا میں بچہ کچھ کھا پی نہیں سکتا ۔ جسم کو توانائی چاہیے ہوتی ہے اس لیے جسم میں موجود توانائی زیادہ استعمال ہونے لگتی ہے۔ اس بیماری سے ٹھیک ہونے کے باوجود بچے کی بھوک کھلتے کھلتے ایک ہفتہ لگتا ہے۔ اس دوران بچے بہت کمزور ہوجاتے ہیں۔ نمونیا کے علاج کے بعد بچے کو پہلے کی نسبت زیادہ اور بہتر خوراک دی جانی چاہیے۔ پیلی رنگت کی غذائیں اور سبز رنگت والی سبزیاں مثلاً ساگ وغیرہ زیادہ دینا چاہیے۔ ایسی غذائیں جن میں وٹامن اے ہو وہ زیادہ دیں۔ وٹامن اے انفیکشن کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ بچوں کو بیماری میں کھانا نہیں دینا چاہیے۔ بچے کو کچھ نہ کچھ کھلاتے رہیں۔ کھانا نہ روکا جائے۔

پاکستان میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ کراچی جیسے شہری علاقوں میں اوسطاً شرح صرف  29فی صد ہے، حالاںکہ کراچی ایک بڑا شہر ہے۔ چھوٹے بڑے سیکڑوں اسپتال ہیں ای پی آئی سینٹرز ہیں۔ معلومات کا نہ ہونا صورت حال کو اور پیچیدہ بنا رہا ہے۔ ای پی آئی سینٹرز کی بھی ذمے داری ہے کہ اگر بچے نہیں آ رہے ہیں تو وہ بچوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ دیہی علاقوں میں تو یہ شرح انتہائی کم ہے ۔ سندھ اور بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی یہ شرح صرف16فی صد تک رہ جاتی ہے ، حالاںکہ دیہی علاقوں میں بھی بیسک ہیلتھ یونٹ (بی ایچ یو) اور تعلقہ اسپتال موجود ہوتے ہیں، جہاں یہ ٹیکے بچوں کو مفت لگائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ناخواندگی کا بھی اس میں خاصا دخل ہے۔

ماں باپ کو معلومات نہیں ہوتیںوہ سمجھتے ہیں کہ جب بچھ بیمار ہی نہیں ہے تو پھر ٹیکے کیوں لگوائیں۔بہت سے غلط نظریات بھی رائج ہیں کہ بچے کو نزلہ کھانسی میں ٹیکا نہیں لگتا یا یہ کہ ٹیکا لگنے سے بچہ بیمار ہوجاتا ہے، حالاںکہ یہ غلط ہے۔ ڈاکٹر در ثمین اکرم کے مطابق بچے کی پیدائش کے پہلے 6، دس یا 14 ہفتوں میں جو ویکسین (پینٹا ویلن) لگتا ہے، اس کی وجہ سے بخار اور درد وغیرہ ہوجاتا ہے جس کے لیے بخار کی دوا بھی دی جاتی ہے اور درد زیادہ ہو تو ٹھنڈے کپڑے سے سکائی کی جاتی ہے۔

یہاں حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوامی مہم کا آغاز کرے اور لوگوں کو بنیادی معلومات فراہم کرے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق دونوں طرف سے کوتاہی ہورہی ہے۔ والدین بھی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہے اور نہ ٹیکے فراہم کرنے والے اپنا کام پوری طور پر کررہے ہیں۔ دونوں شعبوں میں محنت کی سخت ضرورت ہے۔ ہماری لوگوں کی ترجیحات غلط ہیں۔ قاعدے قوانین کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے خصوصا حکومت کی باتوں پر کم ہی دھیان دیا جاتا ہے۔ مثلاً موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے سے گریز کرتے ہیں حالاںکہ یہ ان کی اپنی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ہماری ترجیحات درست نہیں ہیں۔

نمونیاکے عالمی دن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ نے زور دے کر کہا کہ ’’مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں، یہ بچوں میں ویکسین کا کام انجام دیتا ہے۔ اس میں اینٹی باڈیز ہوتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ ماں کا دودھ اللہ کی نعمت ہے، اس میں نمونیا سے لڑنے کی بھیطاقت ہوتی ہے۔‘‘

’’لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے قریب سگریٹ نہ پییں، دھواں ان کے پھیپھڑوں پر اثرانداز ہوگا، جس سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

مائیں ایسی جگہوں پر بچوں کو نہ آنے دیں جہاں دھواں ہو، خصوصاً باورچی خانے وغیرہ میں جہاں لکڑی پر کھانا پک رہا ہو۔‘‘

نمونیے کی ویکسین 73 ممالک میں Global Aliance of Vaccination and Immunization ( GAVI) فراہم کرتا ہے ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دھیرے دھیرے اس ویکسین کی قیمت میں متعلقہ ممالک بھی اپنا حصہ شامل کریں گے۔ پاکستان میں یہ ویکسین 6 ملین بچوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے جس کی مالیت 84 ملین ڈالرز ہے۔ اب تک 9 مہلک بیماری کے ٹیکے لگائے جاتے تھے اب دسمبر سے دسویں ویکسین ’’ روٹاوائرس‘‘ بھی متعارف کروائی جا رہی ہے۔ صوبہ سندھ میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح انتہائی کم ہے۔

پچھلے سال کی شرح29 تھی۔پچھلے برسوں کی شرح دیکھا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ ہم اپنی مطلوبہ شرح تک پہنچ گئے تھے، لیکن یہ شرح اب پھر گرگئی ہے۔ خطرناک بیماریاں مثلاً خسرہ، ڈیپتھیریا اور ٹیٹنس پر ہم نے کافی حد تک قابو پالیا تھا اب ان بیماریوں نے دوبارہ سر اٹھالیا ہے۔ یہ تمام بیماریاں جان لیوا ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت یہ ٹیکے مفت فراہم کررہی ہے آپ کو صرف بچے کو ساتھ لے جاکر لگوانا ہوتا ہے جب کہ اگر ان ویکسین کو خرید کر لگایا جائے تو یہ پورا کورس 24000کا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر درثمین کا کہنا ہے کہ بچوں کی صحت پر سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ایک ڈالر ڈالتے ہیں تو صحت مند فرد کی صورت میں آپ کو 40 ڈالر واپس ملتے ہیں۔

پاکستان کا شماردنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کوحفاظتی ٹیکے لگانے کا رجحان کم ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے رجحان کو 100فی صد کرکے نو جان لیوا بیماریوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ ای پی آئی سندھ کے سربراہ ڈاکٹر آغا اشفاق نے بتایا کہ بنیادی ذمہ داری ایک جانب ہر ضلع کے ڈسٹرک ہیلتھ افسر پر عائد ہے جو اپنے اپنے ضلع میں موجود بچوں کی ویکسینشن کوریج کو پورا کرے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں حفاظتی ٹیکوں کے 1500 سے زائد مراکز موجود ہیں، لیکن والدین میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو ان ٹیکوں سے دور رکھے ہوئے ہے۔

نمونیا دراصل انفیکشن ہی کی ایک شکل ہے۔ بیماری کی شدت میں سانس لینے میں تکلیف اور بچے کی پسلیاں چلنی شروع ہوجاتی ہیں۔

دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی تعداد 2015 میں 920,000تھی یعنیروزانہ 25,00 بچوں کی اموات۔پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کا 16سبب نمونیا ہی ہوتا ہے۔ یہ بیماری صرف بچوں میں نہیں پائی جاتی بل کہ بزرگ اور ایسے تمام لوگ جن کی قوت مدافعت کم ہو۔ غریب اور دیہی علاقوں میں اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2000 سے2015س کے دوران بچوں کی اموات کی شرح میں 1.7 ملین کمی دیکھی گئی ۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق دی لینسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تازہ ترین اعداد و شمار 194 ممالک میں بچوں کی شرح اموات میں فرق کی نشان دہی کرتے ہیں اگرچہ 2010 کے مقابلے میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں 40 لاکھ تک کمی واقع ہوئی ہے۔

گذشتہ برس 59 لاکھ اموات میں سے 36 لاکھ بچوں کا تعلق 10 ایشیائی اور افریقی ممالک سے تھا جن میں بھارت، نائیجیریا، پاکستان، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، چین، انگولا، انڈونیشیا، بنگلادیش اور تنزانیہ شامل ہیں۔

لندن اسکول آف ہائیجین کے محققین کے مطابق بچوں میں اموات کی سب سے بڑی وجہ قبل از وقت پیدائش اور نمونیا ہے۔ محققین کے مطابق پیدائش کے ابتدائی 28 ایام میں بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں سست پیش رفت ایس ڈی جی کے اہداف کو نقصان پہنچارہی ہے۔

جانز ہاپکنز بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کے مصنفہ لی لوئی کہتی ہیں کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ تمام ملکوں میں پیش رفت ایک جیسی نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں کی شرح اموات انتہائی زیادہ ہے۔‘ مصنفہ نے مزید کہا کہ ’افریقا اور جنوبی ایشیا میں پائے دار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے تحت بچوں کی بقائکے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے معقول پیش رفت کی ضرورت ہے۔‘ ایس ڈی جی جس نے گذشتہ برس ایم ڈی جی کی جگہ لی، اس کے تحت تمام ممالک 2030 تک پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کو 25 اموات فی 1000 پیدائش تک محدود کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

محققین نے بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے ماں کا دودھ پلانے، نمونیا، ملیریا اور دست کی ویکسینیشن کے ساتھ ساتھ پانی اور نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غربت، غذا کی کمی، پُرہجوم طرز رہائش اور ماحولیاتی آلودگی اس مرض کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ نمونیے سے بچاؤ کی منہگی ویکسینیشن پاکستان میں تقریباً مفت دست یاب ہے جس سے لاکھوں بچوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2000 سے2015 کے دوران بچوں کی اموات کی شرح میں 1.7 ملین کمی دیکھی گئی۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں لوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں، وہ کھانا بھی وہاں پکاتے ہیں، بعض اوقات جانور بھی وہاں رکھتے ہیں اور وہاں سگریٹ نوشی بھی کی جاتی ہے۔ ایسا ماحول نمونیا پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔

نمونیا دراصل انفیکشن ہی کی ایک شکل ہے۔ بیماری کی شدت میں سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور بچے کی پسلیاں چلنی شروع ہوجاتی ہیں۔

دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی تعداد 2015 میں 920,000تھی یعنیروزانہ 25,00 بچوں کی اموات۔پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کا 16فی صد سبب نمونیا ہی ہوتا ہے۔ یہ بیماری صرف بچوں میں نہیں پائی جاتی بل کہ بزرگ اور ایسے تمام لوگ جن کی قوت مدافعت کم ہو۔ غریب اور دیہی علاقوں میں اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔